غزل
اس دردِ عشق نے بھی عجب سا مزا دیا
اک دن ہنسا دیا مجھے اک دن رلا دیا
خود سے جدا میں تھا کبھی خود سے ملا دیا
میں کیا ہوں اس جہان میں مجھ کو بتا دیا
قطرہ ہی بس ملا تھا مجھے تپتی دھوپ میں
دریا دلی سے قطرے کو دریا بنا دیا
رہتی ہے میرے چہرے پہ ہر وقت جو خوشی
میں نے اسی خوشی میں ہر اک غم چھپا دیا
صحرائے رنج و یاس میں تنہا ہی شوق سے
اک شہرِ انبساط کو میں نے بسا دیا
دم بھر کی آس تھی نہیں جینے کی دہر میں
لیکن کسی کی چاہ نے جینا سکھا دیا
شادابؔ بجھ سکے نہ زمانے میں جو کبھی
ایسا چراغ عشق کا میں نے جلا دیا
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
ر ابطہ9797103435
غـزلـیات
دل کی روداد سنائے گا چلا جائے گا
خون کے آنسو رلائے گا چلا جائے گا
اپنے مطلب سے وہ آئےگا چلا جائے گا
شہر میں آگ لگائے گا چلا جائے گا
ریگِ ساحل پہ بنائے گاوہ تصویر کوئی
اور دو اشک بہائے گا چلا جائے گا
باادب آئے گا خاموش مری قبر پہ وہ
خاک آنکھوں سے لگائے گا چلا جائے گا
جاگتے رہنے کی دے کروہ صدا بستی میں
سوتے لوگوں کو جگائے گا چلا جائےگا ٘
میری اُجڑی ہوئی دنیا کا مسیحا اک دن
شہر خوابوں کا بسائے گا چلا جائے گا
کھڑکیاں بندکرےگا وہ اُتارے گا لباس
چاندنی شب میں نہائے گا چلا جائے گا
ڈوب جائےگا وہ ہرروز مری سانسوں میں
تشنگی دل کی مٹائے گا چلا جائے گا
خواب بن بن کے وہ آئےگا مری پلکوں پر
نیند آنکھوں سے چرائے گا چلا جائے گا
لینے آئےگا وہ راقمؔ سے خبر صحرا کی
ریت مٹھی میں دبائے گا چلا جائے گا
عمران راقم ؔ 9163916117
ہم ایسے قافلے کے ساتھ جانے والے تھے
سفر میں جس کے قدم ڈگمگانے والے تھے
ہمیں سکوت میں ہی آ گیا سکوں، ورنہ
تمہاری بزم میں محشر اٹھانے والے تھے
خدا کا شکر ہَوائیں نہ چل سکیں اُس رات
ہم اپنے گھر کے چراغ آزمانے والے تھے
مقامِ ہُو پہ پہنچ ہی نہیں سکے جو لوگ
وہاں پہ شورِ انا الحق اٹھانے والے تھے
مرے پہنچنے سے پہلے انہیں ملی منزل
وہ قافلے جو مرے بعد آنے والے تھے
خیالِ وصل تب آنے لگا اسے جاذب
جب اس کے ہجر کو ہم بھول جانے والے تھے
جاذب جہانگیر
سوپور ۔ کشمیر
7006706987
عشق کی ٹھوکر نے مجھے عشق کرنا سکھایا ہے
مجھے حقیقی عاشق کے قریب اور لایا ہے
برسوں سے بے سکونی اس دل کو یہاں تھی
سکون بس اس نے تیرے در پہ پایا ہے
مگن تھا اک مُٹھی سمیٹ کے میں یہاں
اک ٹھوکر نے میرے ہاتھوں سے سب گرایا ہے
میں تجھ سے تیری فریادوں کو ضرور سُنتا
مگر تو نے کب خود میرے قابل بنایا ہے
زمانے کو قابو کرنے چلا تھا تو راشد
بس اک زخم نے تجھے یہاں آئینہ دکھایا ہے
راشد اشرف
کرالہ پورہ۔ سرینگر
9622677105
تری یاد مجھ کو ستاتی ہے جاناں
مجھے ہر گھڑی بس رُلاتی ہے جاناں
وہ زلفوں کی آفت اَرے توبہ توبہ!
نہ جانے کئی جان جاتی ہے جاناں
ملا کر وہ شربت میں زہرِ محبت
ہمیں نیند گہری سلاتی ہے جاناں
وہ میٹھی سی بولی وہ پیاری سی مسکاں
رفیقو! مجھے خوب بہاتی ہے جاناں
اسے بھی محبت ہے مجھ سے یقینا
مگر کہنے سے ہچکچاتی ہے جاناں
چلی آ ، چلی آ، چلی آ ، چلی آ
قسم سے بہت یاد آتی ہے جاناں
لگایا اگر دل بُرا اس میں کیا ہے
یہی بات نشتر چبھاتی ہے جاناں
فیضان فیضیؔ
[email protected]
بچوں کی نظم
۔۔۔ برسات ۔۔۔
ہے بارش کا موسم بہت ہی سہانا
نیا ہو یا چاہے پرانا زمانہ
یہ بنجر تھی دھرتی کہ سوکھی زمیں تھی
پتہ بارشوں کی کہیں بھی نہیں تھی
یہ گرمی جو گزری کہ برسات آئی
نئی زندگی کی یہ سوغات لائی
گھٹائیں ہیں چھائی وہ بادل ہیں کالے
چمک بجلیوں کی کہ ہر سُو اُجالے
فلک نے لگایا ہے پھر آج کاجل
وہ بوندوں کی ہلچل وہ کھیتوں کی جل تھل
وہ بارش کی بوندیں وہ ہلکی پھواریں
وہ ہریالی کھیتوں کی اور وہ بہاریں
چلو پھر سے بھیگیں کہ برسات آئی
خوشی یہ کسانوں کی ہے ساتھ لائی
ہے بارش کے قطروں کو دیکھو بچانا
اسے نالیوں میں نہ ہرگز بہانہ
بچا گر سکیں نا تو نقصان ہوگا
کوئی پیڑ ہوگا نہ انسان ہوگا
یہ بارش ہے انمول پانی بچا لیں
چلو ان ہی بوندوں سے جیون سجا لیں
چلو ان ہی بوندوں سے جیون سجا لیں
۔……. شہاب حمزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غــزلیــات
ہر آن اک جدید مصیبت کا دور ہے
اکیسویں صدی ہے کہ آفت کا دور ہے
اک عطر بیز جسم کی وصلت سے قرب سے
میرے وجود پر بڑی نکہت کا دور ہے
نفرت کی بھینٹ اِس کو چڑھا تا ہے کس لئے
یہ زندگی تو یار محبت کا دور ہے
بہرِ سکوں جہانِ محبت میں آئے تھے
لیکن یہاں تو اور بھی وحشت کا دور ہے
کتنے ہی اہلِ دل کی یہ جانیں ہے لے چکا
تجھ پر شباب ہے یا قیامت کا دور ہے
میری کسی کو کوئی ضرورت نہیں رہی
یہ تو مرے لئے بڑی ذلت کا دور ہے
چاہت کے عہد کو نہ تلاشو اِدھر اُدھر
یہ اپنی دوستی ہی تو الفت کا دور ہے
اک بے پناہ حسن کی قربت کا ہے کمال
جملوں پہ میرے یہ جو فصاحت کا دور ہے
یہ جس کو وصلِ یار کا موسم ہیں کہتے سب
یہ بے پناہ لطف کا لذت کا دور ہے
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی چلنا جہاں مُشکل ہوا ہے
وہی رستہ میری منزل ہوا ہے
مخالف ہو گئی ہے ساری دُنیا
یہی حق گوئی کا حاصل ہوا ہے
وفا میں کیسے بدلے وہ جفائیں
کبھی طوفان بھی ساحل ہوا ہے
کسی کے حق میں نکلی ہیں دُعائیں
کہ جب بھی ٹُکڑے ٹُکڑے دل ہوا ہے
نہیں دیکھا تھا روبینہؔ یہ منظر
کہ اِنساں اِنسان کا قاتل ہوا ہے
روبینہ میر
منڈی پونچھ ۔جموں
7006056715
ہم تھے ہونے کی واردات میں کیا؟
گُل یہی کِھلنے تھے حیات میں کیا؟
جب کِھلا تھا مِرے وجود کا پھول
تو اسی دم تھا کائنات میں کیا؟
جتنے صحرا تھے سب گزر گئے ہیں
ابھی بھی کچھ ہے دشتِ ذات میں کیا؟
تیرے جانے کے بعد سوچتا ہوں
بچ گیا ہے تصورات میں کیا؟
ایک پاگل نے خود کو کھو دیا ہے
اک تَمنائے التفات میں کیا؟
اپنی ہی دھن میں دل اے شام و سحر
ڈھونڈتا ہے توہمات میں کیا؟
میں جہاں میں کہیں نہیں موجود
میرا ہونا تھا ممکنات میں کیا؟
ہے ابھی تک وہ کربلا بہ جنوں
تشنگی ہے ابھی فرات میں کیا؟
کوئی آواز تک نہیں آتی
حشر ہے برپا اس سکات میں کیا؟
اے ہوا مجھ کو یہ بتائیو تو
جاگا ہے وہ بھی چاند رات میں کیا؟
اب بھی ہے ڈل میں پیار کا موسم؟
اب بھی کھِلتے ہیں گل نشاط میں کیا؟
اک زمانے میں جو ہوئے تھے جدا
اک زمانے رہے ہیں ساتھ میں کیا؟
راحتِ جاں سکونِ دل ابھی تک!
ڈھونڈتا ہے تَعَلُّقات میں کیا؟
وہ شعاعوں کا جو مسافر تھا
کھو گیا ہے اندھیری رات میں کیا؟
رات کیوں دنیا مجھ کو اچھی لگی
ہاتھ تیرا تھا میرے ہاتھ میں کیا؟
ان محبت کی وادیوں کی طرف
ہم یونہی چل رہے تھے ساتھ میں کیا؟
میں نے تو سوچا تھا کہ مر گیا ہوں
اب بھی الجھا ہوں اپنی ذات میں کیا؟
کتنا خالی ہوں، سوچتا ہوں میں
بس یہی تیرگی ہے ذات میں کیا؟
اک سوالی تھا خواب کا رسیا
کچھ ملا تھا اسے بھی رات میں کیا؟
وہ جو خوشبو تھی تیرے ہونے کی
اب بھی باقی ہے میری ذات میں کیا؟
میر شہریار
اننت ناگ 7780895105
ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبدیلی
ماں کہتی تھی
یہ کب تک چلے گا۔
کھانا آپ کی پسند کا نہیں
تو بھوک نہیں،
کپڑے پسند کے نہیں
تو پہننے نہیں
سونا جاگنا اُٹھنا بیٹھنا
سب تیری پسند کا ہونا چاہئے
لڑکی ہو! سسرال جانا ہے!
پھر یہ من مانی نہیں چلے گی۔
ماں۔۔۔۔!
آج آپ دیکھ رہی ہیں
دوسروں کی پسند کا
خیال رکھتے رکھتے
یا تو میں بھول گئی ہوں
یا اس بے ذائقہ زندگی
میں یاد ہی نہیں رہتا
میرا من پسند کھانا کون ساتھا۔؟
اب آپ خوش رہو
میں ضدی نہیں رہی
روحی جان
نوگام سرینگر
قطعات
شمع امید گو میں نے بجھائی ہے
پھر بھی کیوں تو مجھے اب یاد آئی ہے
ہم نے ہر پل محبت میں مرے یاروں
جانے انجانے میں ہی چوٹ کھائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند کی ہی طرح میں بھی اکیلا ہوں
درد سے میں بھرا اِک تنہا صحرا ہوں
میں نے سوچا تھا تجھ میں ہوں کہیں موجود
کیا خبر تھی یہاں پر بھی اکیلا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیر ہوگئی تم سے کیوں گلے لگانے میں
کیوں ترس نہیں کھاتے دل مرا جلانے میں
قیسؔ اس کی حسرت کا اور پھر جدائی کا
ذکر بھی ضروری ہے میرے ہر فسانے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
6006242157