نہ اس کو خط لکھے کوئی نہ ٹیلیفون کرتے ہیں
یونہی جذبات کا ہم بھی ہمیشہ خون کرتے ہیں
ارادہ روز کرتے ہیں کہیں گے حالِ دل اُن سے
نومبر یا دسمبر کو اچانک جون کرتے ہیں
بدن کی ٹیس سے کہہ دو غریبوں کی دوا سستی
پسینے کی یہ مالش ہے اسے زیتون کرتے ہیں
اکیلا پن کھٹکتا ہے کوئی نقطہ ابھی ڈھونڈیں
چلو یہ زندگی اپنی الف سے نون کرتے ہیں
تڑپتا ہے اگر کوئی اثر ہم کو نہیں ہوتا
ہمارا دل ہے پتھر کا اسے ہم اُون کرتے ہیں
ہمیں تم سوچنا چھوڑو فلکؔ جی تو ہے بنجارا
بسیرا ہم کبھی کوچی کبھی رنگون کرتے ہیں
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
اشک اپنا اپنے ہاتھوں پونچھتا رہ جائے گا
کوئی ہم کو عمر بھر اب ڈھونڈتا رہ جائے گا
جب کبھی آئے گی تجھ کو یاد میری بے وفا
جانتا ہوں خود کو ہی تُو کوستا رہ جائے گا
میں چلا جاؤں گا مرقد میں اکیلا چھوڑ کر
اس بھری دنیا میں تنہا دیکھتا رہ جائے گا
ساتھ چل کر دو قدم پائیں گے منزل کا پتہ
اور اک تُو ہی کنارے سوچتا رہ جائے گا
کوئی بھی فریاد تیری اب سنے گا ہی نہیں
بھیڑ میں تنہائی میں تُو بولتا رہ جائے گا
جانے والے مُڑ کے بھی پھر تجھ کو دیکھیں گے نہیں
گر چہ روتا تُو بلکتا روکتا رہ جائے گا
سالک انورؔ کہہ رہے ہیں بحر و بر یہ مہر و مہ
دیکھنا اب یہ بھی ہم کو کھوجتا رہ جائے گا
سالک انورسالکؔ
کسماریمدھوبنی،بہار
یہ سر جب سے جھکائے جا رہے ہیں
مکاں اونچے بنائے جا رہے ہیں
طریقے سے وہی اب بھی پرانے
نئے کرتب دکھائے جا رہے ہیں
خطا جن کی نہیں کوئی وہی اب
سرِ مقتل بلائے جا رہے ہیں
خدا کا نام لے کر نفرتوں کے
دیئے ہر سو جلائے جا رہے ہیں
شبِ ظلمت میں اندھوں کو یہاں اب
اُگے سورج دکھائے جا رہے ہیں
یہاں اپنے ہی اب اپنوں کے گھر کو
بنا مطلب جلائے جا رہے ہیں
یہ کیسا میکدہ ہے سب جہاں پہ
بنا پوچھے پلائے جا رہے ہیں
بھلا کے راستے اسلاف کے ہم
نشاں اپنا مٹائے جا رہے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں اظہرؔ جو سر کو
سبھی در پر جھکائے جا رہے ہیں
محمد اظہر شمشاد
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (دربھنگہ کیمپس)
موبائل نمبر؛8436658850
بازار کاغذی پھولوں کا بولتا ہے یہاں
گلابوں کو چاہنے والا ڈولتا ہے یہاں
لگ رہا ہے ڈر مجھے اپنے ہی اس شہر میں
ناگ کوئی ماحول میں زہر گھولتا ہے یہاں
تختِ منصف مل گیا باطلوں کو در بار میں
سالار بن گئے رہنرن قافلہ روتا ہے یہاں
بے گناہوں کو سزا مل گئی اس دور میں
ہاتھ میں خنجر لئے مجرم گھومتا ہے یہاں
بازی گروں کی بھیڑ ہے جس میں الجھا ہے سعیدؔ
مسیحا ہر کوئی خود کو کہتا ہے یہاں
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380
تم نہیں ہو پاس جب تو اِک سوال ہے مرا
تیرے بعد کون ہے جو ہم خیال ہے مرا
جب سے تو ہوا ہے دور دل کے شہر سے مرے
تب سے ہی تُو یار یہ شکستہ حال ہے مرا
وہ تو میرے خواب ڈال کر گیا ہے خاک میں
اب تو جینا بھی جہان میں محال ہے مرا
بِن ترے میں پھر بھی جی رہا ہوں اس جہان میں
اے بِنائے ہجر و غم یہی کمال ہے مرا
تُو کبھی تو آئے اور دیکھے میری بے بسی
تیرے اِس فراق میں بُرا جو حال ہے مرا
میں نے خود کو قیسؔ دی سزا یہ خود ہی ہے مگر
اب کہوں میں کیسے تُجھ سے بھی ملال ہے مرا
کیسر خان قیس ؔ
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
موبائل نمبر؛6006242157