غزلیات

پہلی سی کوئی کہانی نہ رہی
ہم میں بھی رنگیں بیانی نہ رہی
وہ چلے آئے ہیں اب ملنے کو
جب کوئی رات ۜسہانی نہ رہی
اب نہیں ناؤ کو کوئی خطرہ
اب وہ دریا میں روانی نہ رہی
بھر گئے سارے جو تھے زخم اس میں
آپ کی دل میں نشانی نہ رہی
گرم جوشی سے نہیں اب ملتے
ان سے نسبت وہ پرانی نہ رہی
بھر گئے دل میں حادثات نئے
کوئی بھی یاد پُرانی نہ رہی
منجمد ہو گئے جذبات ہتاش ؔ
کیا کریں ہم وہ جوانی نہ رہی

پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607

پھول تو پھول ہیں ہرصحنِ چمن نوچ دیا
باغباں ہی نے مرا حسنِ وطن نوچ دیا
ایک بھونرے نے محبت کی نمائش کرکے
گُل سے لپٹی ہوئی تتلی کا بدن نوچ دیا
اتنی نفرت توستاروں سے نہیں ہوتی ہے
چاند کی چاہ میں یہ سارا گگن نوچ دیا
ملک میرابھی تھااس دہرمیں دلہن کی طرح
اس کے ماتھے کا ہر اک نور کرن نوچ دیا
کتنے کم ظرف ہیں دولت کے پجاری سوچو
قبر میں ڈال کے مردے کا کفن نوچ دیا
اور منصور سردار کہاں تک ہوتے
ہم نے سرمد کی طرح دارو رسن نوچ دیا
زندگی آ کے مسافت کی دہائی دیتی
ہم نے تاثیر تھکن خیمہ فگن نوچ دیا
عکس یہ فرش کا ہے عرش پہ آئے کیوں کر
روشنی بن کے حریفوں کا گہن نوچ دیا
اب نہیں فکر تری اے بھولنے والے سن لے
دل کے ہر گوشے سے ہر رنج و محن نوچ دیا
ہم نئی فکر کے شاعر ہیں جناب راقمؔ
ہم نے کچھ کے یہ چرخ کہن نوچ دیا

عمران راقم
موبائل نمبر؛9163916117

بے چین زندگی کا سہارا ہے قہقہہ
ٹوٹے دلوں کے غم کا مداوا ہے قہقہہ
غمگین دل شکستہ دکھی بے سہاروں کا
اک قیمتی نفیس اثاثہ ہے قہقہہ
کھا کھا کے چوٹ کوچۂ جاناں میں سنگ کا
مجنوں کے سوزِ دل کا تڑپنا ہے قہقہہ
دنیا سے اپنے غم کو چھپانے کا اک حسیں
عالم میں آشکار بہانہ ہے قہقہہ
بے فائیدہ فضول یوں بے کار ہی نہیں
بربادیوں پہ اپنی دلاسہ ہے قہقہہ
اظہرؔ لبوں پہ ہر گھڑی دنیا کے واسطے
رسمی سا محض ایک دکھاوا ہے قہقہہ

محمد اظہرؔ شمشاد
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (دربھنگہ کیمپس)
موبائل نمبر؛8436658850

آج رات چاندنی بڑی دیر سے نکل آئی ہے
آسمان سے ہوکے صحنِ دل میں اُتر آئی ہے
یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے ابھی تلک
زندگی کوئی حقیقت ہے یا کہ پرچھائی ہے
سب کو ملنے کی اِجازت ہے کہاں ! اُسے
چند لوگوں سے فقط اُس کی شناسائی ہے
میں نے دیکھا ہے محبت میں ڈوبنے کا انجام
کوئی جان نہیں پایا عِشق جو تیری گہرائی ہے
کچھ دیر ہی سہی چلو! آئو بیٹھو میرے پاس
ایک بس میں ہوں اور میری تنہائی ہے
ہنس رہے ہیں مجھ پہ جو میرے دَرد وغم
تونے مشتاقؔ کس بات کی یہ سزا پائی ہے

خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسو اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛9682642163
[email protected]

کبھی تو یہ قلبِ مَرید خمیدہ ہوجائے
کبھی تو روحِ عنید سنجیدہ ہو جائے

ناز کرنا اور وہ بھی اپنی کج روی پر
ہائے ہوسِ نفس کا سر بریدہ ہو جائے

اوڑھ کر لباسِ فقر سراب میں نہ آنا
کہیں مارِ نفس کا سر کشیدہ ہو جائے

کب تلک مثلِ سنگ و خشت دل بنا رہے
سُن چشمِ کور اب تو نمدیدہ ہو جائے

کچھ دنوں کی یہ جہاں کی رعنائی ہے
آخر یہ بھی تو کبھی پوشیدہ ہو جائے

کیونکر نازاں تم خود پر ہو اے اویسؔ
جان جانے تمہاری کب رہیدہ ہو جائے

اویسؔ ابن بشیر
آلوچہ باغ،سرینگر،کشمیر
[email protected]