غزلیات

غم ہی غم ہیں تَن میں جب تک جان ہے
زندہ رہنا بھی کہاں آسان ہے

عشق میں ہے رائگانی سربسر
سربسر نقصان ہی نقصان ہے

دور تک انسانیت دِکھتی نہیں
آدمی بس نام کا انسان ہے

یاد بھی کرتا نہیں وہ اب مجھے
جس کے کارن زندگی شمشان ہے

عمر بھر کا سُکھ گنوا کے،پھر کہیں
اک محبت کا بَھرا تاوان ہے

اُس کے دل میں اب کہاں ممتازؔ تُم!
اُس خزانے پر نیا دربان ہے

ممتاز چودھری
راجوری ،جموں
[email protected]

 

بے کار ہے کمان تری تیر کے بغیر
کیوں لڑ رہا ہے جنگ یہ تدبیر کے بغیر
اب کے تو بزمِ عشق سے اٹھنا محال ہے
باندھا کسی کی باتوں نے زنجیر کے بغیر
ہر رات دیکھتا ہوں جو اکثر میں جاگ کر
شاید وہ خواب ہے مرا تعبیر کے بغیر
پوچھا کسی نے کون سا شاعر پسند ہے
میں نے لیا نہ نام کوئی میرؔ کے بغیر
جوبن پہ آج باغِ سخن ہے مرا، اُسے
خونِ جگر سے سینچا ہے تشہیر کے بغیر
کتنا امیر ہوں کہ مرے دل میں اے خدا!
کچھ بھی نہیں ہے یار کی تصویر کے بغیر
شادابؔ خلد کہتے ہیں اہلِ نظر جسے
ممکن نہیں وہ وادی ہو کشمیر کے بغیر

شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435

جب دھوپ اُ گی ہوئی ہو تو پرچھائیاں پرکھ
چہرہ نہ پڑھ خیال کی سچائیاں پرکھ
جو سانس سانس درد سے مہکائیں جسم کو
اے طالبِ شمیم وہ پُروائیاں پرکھ
مانا نڈھال کر گئی ساون تری پھوار
تحریک دے رہی ہیں جو انگڑائیاں پرکھ
ان سے ہی شش جہات میں ہیں میری شہرتیں
اس ز ا ویئے سے تو مری رسوائیاں پرکھ
راتوں کی تیرگی میں ہی تارے چمکتے ہیں
ویرانیوں میں انجمن آرائیاں پرکھ
نورِ سحر ہی آمدِ شب کی دلیل ہے
وقتِ وصال آئے تو تنہائیاں پرکھ
تو صرف ان پہاڑوں کی اونچائیاں نہ جانچ
پہلے ذر ا ندی کی بھی گہر ا ٸیاں پرکھ

ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج،بارہ بنکی،انڈیا

تیرا جلوہ کہیں نہیں ہوتا
تو یہ عالم حسیں نہیں ہوتا
جب بھی ہوتا ہے میری آنکھوں میں
وہ صنم پھر کہیں نہیں ہوتا
تُو میرے سامنے ہے جانِ غزل
مُجھ کو پھر بھی یقین نہیں ہوتا
تیرے ہونے کی بات ہے ورنہ
کوئی موسم حسیں نہیں ہوتا
جِس جگہ تم نے چُھو کے پوچھا ہے
درد بھی بس وہیں نہیں ہوتا
تیری پہلی نظر نہ پڑتی تو
چاند اِتنا حسین نہیں ہوتا
چشمِ آذر حسیں ہوتی ہے
کوئی پتھر حسیں نہیں ہوتا
تیرے قدموں میں آگیا پنچھیؔ
آسماں یوں زمیں نہیں ہوتا

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر مالیر کوٹلہ روڑ کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

پردۂ خاکی میں کیا چھپائے بیٹھا ہوں
اپنے زخموں کو سینے میں دبائے بیٹھا ہوں
میں دکانداری کی باتیں کر نہیں سکتا
زانوے ادب کی تہہ میں بٹھائے بیٹھا ہوں
پھر رہا ہوں کب سے دشتِ نَورد میں تنہا
یعنی دامنِ صحرا میں پھرائے بیٹھا ہوں
جانے کیوں چراغِ تَہِ داماں کے بجھانے میں
راہ چلتے کا پلّہ کچھ بچائے بیٹھا ہوں
اے حسینۂ عالم کیا وجود ہے تیرا ؟
آہ ! اس پری رو سے دل لگائے بیٹھا ہوں
گھل ہی جائیں گے اب راز و نیاز کی باتیں
لا مکاں میں گھر اپنا کچھ بنائے بیٹھا ہوں
آدمی ہو یا کہ بے دال کے ہو بودم تم
کچھ نہ سو جھے اپنی بغلیں چھپائے بیٹھا ہوں
اک شبِ وِغا ہے ، اس پر ہوا نزولِ شعر
جیسے کی چڑھی گنگا میں نہائے بیٹھا ہوں
لگ گیا لبوں پر مُہرِ سکوت یاورؔ کیوں
میں تھا خامۂ بُلبُل ، لب سلائے بیٹھا ہوں

یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160

ہر پل سب کو نا پ رہا ہے
کالج کا جو ٹا پ رہا ہے
پڑھے لکھوں نے گھیرا جب سے
تب سے تھر تھر کانپ رہا ہے
سچ کی کر تا کون حفاظت
سچ تو اپنے آ پ رہا ہے
کرتے تھے سب جس پہ بھروسہ
وہ تو کالا سانپ رہا ہے
قاتل بھی اب روپ بد ل کر
بیٹھے مالا جاپ رہا ہے
دن بھر دھوپ کی شدت سہہ کر
دہقاں کیسے ہانپ رہا ہے
لگتا ہے وہ طور سے اخترؔ
پکا سب کا باپ رہا ہے

شمیم اختر
شیب پور ۔ ہوڑہ۔مغربی بنگال
موبائل نمبر؛ 9836225704

گو تاریک بہت ہے شب آئے گی صبح
چھٹیں گے اندھیرے یہ سب، آئے گی صبح

خانۂ شب ہے روشن جس سے وہ چراغ
ہوجائے گا بے اثر جب آئے گی صبح

میں مانندِ شب ہوں بہ انتظارِ صبح اور
تُم آفتاب آئوگے جب آئے گی صبح

نیند آنکھوں میں حسین خواب کہاں اب
شب بھر کہتے رہتے ہیں کب آئے گی صبح

صورتؔ شبِ ہجر تیری ہے لا محدود شب
یہاں کہ آتے آتے ہی اب آئے گی صبح

صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549