آدمی آدھا ادھورا بھی بہت ہوتا ہے
ایک ٹوٹا ہوا تارا بھی بہت ہوتا ہے
ایک دشمن ہی بہت ہے تری صف میں دوست
راکھ میں ایک شرارہ بھی بہت ہوتا ہے
عشق اس شخص سے ہم نے ہی مکرر نہ کیا
ورنہ یہ عشق دو بارہ بھی بہت ہوتا ہے
ساتھ تیرے میں کسی اور کو گوارا نہ کروں
چاند کے ساتھ ستارہ بھی بہت ہوتا ہے
ذکر چھیڑا ہے کسی اور کا میرے آگے
عقل مندوں کو اشارہ بھی بہت ہوتا ہے
کچھ محبت کی ضرورت ہی بہت تھی ہم کو
ورنہ تھوڑے پہ گزارا بھی بہت ہوتا ہے
اشرف عادل
الٰہی باغ ، سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9906540315
رات دن دل یہ سوچتا کیا ہے
میری تقدیر میں لکھا کیا ہے
کیا کہوں چند گہرے زخموں کے
زندگی میں مجھے ملا کیا ہے
میری خاطر ہے کیوں پریشانی
میں ہوں دیوانہ اِک میرا کیا ہے
بدگماں آپ کب تھے یوں پہلے
مجھ سے آخر ہوئی خطا کیا ہے
کوئی اِس میں نہیں تمنا اب
اس دِل زار میں بچا کیا ہے
اُس کی آنکھیں بتارہی ہیں صاف
راز کوئی بھی اب چُھپا کیا ہے
دِل پہ ہر اک ستم سہا ہے ہتاش ؔ
سوچتا ہوں میں رہ گیا کیا ہے
پیارے ہتاش
دور درشن لین جانی پورہ، جموں
موبائل نمبر؛8493853607
کبھی آکے دیکھ لے اک نظر تیرے بعد میرا جو حال ہے
نہ گلہ نہ تجھ سے شکایتیں نہ ہمیں کوئی بھی ملال ہے
تُو جو ہے توآنکھوں میں نو ر ہے تُو قریب رہ کے بھی دوُر ہے
تیرے سنگ جینے کی آرزو تجھے پانا کتنا محال ہے
لے گیا وہ سکون بھی چین بھی جو نہ جانے عشق کا ’’ع‘‘بھی
ہے وہ بے خبر غمِ ہجر سے اُسے کیا خبر کیا وصال ہے
میری دھڑکنیں تیرا نام لیںیوں ہی رات دن صبح شام لیں
میں نے تجھ کو روُح سمجھ لیا تیرے بن یوں جینا کمال ہے
مجھے دھڑکنیں بھی گراں لگیں، یہ وجود وہم و گماں لگے
میں ہوں کب سے خوُد کی تلاش میں یہ سراپا خواب و خیال ہے
میری یادوں میں جو ٹھہر گیا وہ حقیقتوں میں کدھر گیا
تیری یاد جینے کا ہے سبب یہ نہ ہو تو جینا محال ہے
اسرار نازکی
لولاب کپواڑہ حال نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛7889714415
پوچھنا کیا ہے کیوں وہ آیا تھا
باغ میں تتلیوں نے لایا تھا
رات شعلہ تھی آب پر چمکی
آنکھ میں دیر تک اُجالا تھا
میں نے شیشے کو چُھو لیا تھا بس
ڈر گیا کیوں کوئی پرایا تھا
مسکراتے ہوئے وہ ٹِھٹکی تھی
جانے کس غم کا دل پہ سایا تھا
شاطروں سے تھی جنگ پھر بھی میں
سادگی کو بچا کے لایا تھا
مشتاق مہدیؔ
ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053
جھول کر بادِ صبا ،کیا رُت سُہانی دے گئی
رنج و غم لے کر مُجھے پھر شادمانی دے گئی
نفرتوں کی آگ نے سب کُچھ جلا کر رکھ دیا
کیسی چنگاری اُڑی شعلہ فشانی دے گئی
کیا نہیں دیتا ? اگر وہ دینا چاہے ذولجلال
اُس کی رحمت تو زلیخا کو جوانی دے گئی
ہر گُماں اک واہمے میں ڈھل گیا ہے با خُدا
خوش گُمانی،کیا گُماں کی بد گُمانی دے گئی
ٹُوٹتے ،بنتے،بکھرتے ،دائروں کے روپ میں
وہ مُجھے الفاظ میں بکھری کہانی دے گئی
چاند راتوں کی روبینہؔ اک ضیائے نا تمام
مُجھ کو من موسم کی ساری رازدانی دے گئی
روبینہؔ میر
بڈھون راجوری، جموں کشمیر
غبار ِآگ لہو خنجروں کے بیچ رہا
مرا وجود ان ہی منظروں کے بیچ رہا
میں تیری یاد سے غافل نہیں رہا یارب
یہ اور بات کہ میں منکروں کے بیچ رہا
مرے وجود سے اُبلا ہے عزم کا لاوا
مرا یہ عزم ترے تذکروں کے بیچ رہا
عجیب بات ہے منزل پہ وہ پہنچ نہ سکا
جو تیز گام چلا،رہبروں کے بیچ رہا
نہ آیا آج تلک اس کو دلبری کا ہنر
وہ خوبرو جو سدا دلبروں کے بیچ رہا
میں سنگ ہو کے رہا دور دور شیشوں سے
وہ شیشہ ہو کے سدا پتھروں کے بیچ رہا
لو آج ہار گیا وہ بھی زندگی سے رفیقؔ
تمام عمر جو بازی گروں کے بیچ رہا
رفیق عثمانی
آکولہ مہاراشٹر
سابق آفس سپرانٹنڈٹ BSNL
جان و دل سب ہو گئے ہیں بے اثر اے چارہ گر
اشک جاری رہتے ہیں آٹھوں پہر اے چارہ گر
بعدِ مردن اپنے قُربِ خاص میں رکھنا مجھے
تجھ سے اتنا عرض ہے نورِسحر اے چارہ گر
مشورہ اپنے معالج سے ہوا ہے ترک میں
جب سے گھائل کر گئی تیری نظر اے چارہ گر
شان گُھٹنے کی نہیں ہے ، سر بلندی ہے میاں
اس لئے ہر گز نہیں جھکنے کا ڈر اے چارہ گر
باپ ماں نے کی مشقت رات دن میرے لئے
ہنس کے سب دکھ سہہ گئے مادر پدر اے چارہ گر
اپنے بیٹے کو نہیں دلوا سکا میں کوئی کام
ہوک دل میں اُٹھتی رہتی ہے ادھر اے چارہ گر
ہر گھڑی کرتی تعاقب ہیں مری رسوائیاں
ڈھونڈتا ہوں پھر وہی دیوار و در اے چارہ گر
شاعری وہ بھی سعیدِ قادریؔ کی شاعری
ہرطرف سے مل رہے ہیں اب ثمر اے چارہ گر
سعید قادری ؔ
صاحب گنج مظفرپور بہار
موبائل نمبر؛9199533834
اتنا سویا بھی نہیں جاتا ہے
ہوش کھویا بھی نہیں جاتا ہے
خواب آنکھوں میں بھرے جاتا ہوں
بوجھ ڈھویا بھی نہیں جاتا ہے
فرقتوں کے اُداس موسم میں
کُھل کے رویا بھی نہیں جاتا ہے
ذکر جب کربلا کا سُنتا ہوں
لب بھگویا بھی نہیں جاتا ہے
زخم جو بھر چکے ہیں ان پر فیض ؔ
رویا دھویا بھی نہیں جاتا ہے
فیض الامین فیض ؔ
ضلع۔بردوان ،مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8972769994
نہ کوئی گھر، نہ ٹھکانہ کوئی باقی اس جہاں میں
نہ کوئی آہٹ، نہ کوئی شے، ہوں اب کہاں میں
سانس تو لیتا ہوں پر سینے میں دم نہیں ہے
راہ کا اِک بھٹکا سا مسافر ہوں تیرے کارواں میں
وہ جو اپنے تھے ’’بہت اپنے ‘‘گئے رنگ بدل کے
غمِ اظہار مشکل ، رونا بھی جرم ہے خانۂ ویراں میں
میں اُف بھی نہ کروں گا، ابھی حوصلہ میرا جواں ہے
میں بھی مرا نہیں، مرمر کے زِندہ ہوں تیر ی اَماں میں
تنہاؔ؟کیوں چُراتے ہو نظریں اس عالم بے کسی سے
ہے تیرے سر پر بھی الزام، ڈھونڈوں تجھے کہاں کہاں میں
قاضی عبدالرشید تنہاؔ
روزلین، کالونی چھانہ پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9596200290