نقش بر لا ابھارتا کیوں ہوں
حیرتی ہے نکھارتا کیوں ہوں
اس نے مانا کہ لے گیا بازی
مجھ سے پوچھو کہ ہارتا کیوں ہوں
جن سے میری جبیں اُلجھ بیٹھی
انکی زلفیں سنوارتا کیوں ہوں
اک عجب یہ بھی کارِ تنہائی
عکس کو آنکھ مارتا کیوں ہوں
دشت کے ان گمان زاروں میں
اشک بن کے نہارتا کیوں ہوں
جس کا ہر وار جان لیوا ہے
جان و دل اس پہ وارتا کیوں ہوں
یہ جو صحرا صدا نہیں سنتا
پھر بھی شیداؔ پکارتا کیوں ہوں
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7889677765
میں تنہائی میں جینا چاہتا ہُوں
گِریباں چاک سینا چاہتا ہُوں
محفل میں آکر جا م تک نہ چھُوا
میں آنکھوں سے پینا چاہتا ہُوں
خوب کریں باتیں لمبی راتیں ہوں
اِس لئے پہوہ مہینہ چاہتا ہُوں
کُچھ آرزو نہیں بس اِک تمنّا ہے
ساگر ‘ساقی‘ مینا چاہتا ہُوں
جس کا رنگ چڑھ کے نہ اُترے منیؔ
ایسی خوش رنگ حِنا چاہتا ہُوں
ہریش کمار منی ؔبھدرواہی
بھدرواہ، جموں
[email protected]
ستم کروں سے کوئی شکایت نہیں ہے مجھے
کبھی اپنے تھے جو اُن سے عداوت نہیں ہے مجھے
تیرا فریب مجھے اچھا لگا تو تھا رہبر
فریب پھر سے مگر کھانے کی ہمت نہیں ہے مجھے
زاہد نہ ٹوک رندوں سے ہیں مراسم میرے
ساقی بھی مہربان ہے توبہ کی نیت نہیں ہے مجھے
کردے مدہوش ساقی بازی گروں کی بیچ
ہوش میں رہتے جینے کی چاہت نہیں ہے مجھے
پہلے اوقات دیکھتے ہیں جو سعیدؔ
ایسے رشتوں سے محبت نہیں ہے مجھے
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906926380
دِل کی اس آگ کو بھڑکایا بھی جاسکتا ہے
کھوئے ہوئے معیار کو واپس لایا بھی جاسکتا ہے
ہونٹوں پہ لگے تالوں کو توڑا بھی جاسکتا ہے
صداقت کو اِس زباں پہ لایا بھی جاسکتا ہے
یہ دل اگر تیرے فرمان کی تعمیل کردے تو
باطل کو اس تخت سے گرایا بھی جاسکتا ہے
بستی میں لگی آگ کو بجھایا بھی جاسکتا ہے
لہُو کے قطروں سے صحرا کو بسایا بھی جاسکتا ہے
اے میرے رہبر میرے دل کے محبوب
تیری خاطر جِگر کے لہُو کو بہایا بھی جاسکتا ہے
تُو اس دُنیا کی طلبگارِی چھوڑ دے اے دل
تُجھ کو یار کے قابل بنایا بھی جاسکتا ہے
جھوٹ کے اِس نقاب کو اتارا بھی جاسکتا ہے
لہُو سے صداقت کا چراغ جلایا بھی جاسکتا ہے
کشتیِ کو لہروں سے ٹکرایا بھی جاسکتا ہے
کھوئی منزل کو واپس پایا بھی جاسکتا ہے
اے میرے دِل تُو اتنا نااُمید نہ ہو
روٹھا جو يار تیرا اُسکو منایا بھی جاسکتا ہے
راشدؔ اِنصاف کے طوفان کو لایا بھی جاسکتا ہے
غفلت کی نيند سے خودکو جگایا بھی جاسکتا ہے
راشد احمدراشدؔ
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105
خواب
زیست کا مفہومہے فقط ایک خواب
ہے کتاب ِ زندگی کا یہ یہ انوکھا باب
دیتےہیں چند خواب حقیقت کا اشارہ
کرتے ہیں کچھ خواب اُمیدوں کو سی پارہ
خوابوں کی دنیا ہے مانا حقیقت سے دور
حسرتوں کی سیر ہوتی ہے یہاں ضرور
خواب علامت ہے عظمت و کمال کی
ہاں عروج کی کہیں،کہیں زوال کی
سچے خواب ہوتے ہیں کل کی نشانی
ہے کہیں بہار، کہیں دکھ کی کہانی
خواب زمین و زمان کی قید سے جدا
ہیں فاصلےاوروقت کی یاں ہے نہ انتہا
کرتاکوئی تخت ہے تعمیر خواب میں
کوئی کرتا بخت ہے تحریرخواب میں
خواب بکھرتے ہیں یاں سنورتے سنورتے
بجھتے ہیں چراغ یاں چمکتے چمکتے
ہجر کی راتوں کی دوریاں مٹاتے خواب
اور فرقت میں دلوں کوہیں ملاتے خواب
زندگانی کیا ہے آخر خواب یا سراب
ہے نعیم اک معمہ قصۂ اضطراب
محمد نعیم خان
سیر ہمدان، اننت ناگ