مہربانی جب تلک چلتی ہے چل
زندگانی جب تلک چلتی ہے چل
شور ہے بس سانس کی ہی ڈور سے
یہ روانی جب تلک چلتی ہے چل
شوق پر رکھ عزم کی بنیاد تو
جاں فشانی جب تلک چلتی ہے چل
دل کسی کا مت دُکھا تو صبر کر
بے زبانی جب تلک چلتی ہے چل
کھو نہ جانا منزلوں کی چاہ میں
بے نشانی جب تلک چلتی ہے چل
دوش پر رکھ ہوش کے ہی پھول تو
خوش بیانی جب تلک چلتی ہے چل
اک سفر ہے رات دن بے نام سا
پاسبانی جب تلک چلتی ہے چل
ظرف کی ہے بات گوہر بات کر
دُرفشانی جب تلک چلتی ہے چل
از گوہر بانہالی
بانہال رام بن جموں
موبائل نمبر؛9906171211
رات دن دل یہ سوچتا کیا ہے
میری تقدیر میں لکھا کیا ہے
کیا کہوں چند گہرے زخموں کے
زندگی میں مجھے مِلا کیا ہے
میری خاطر ہے کیوں پریشانی
میں ہوں دیوانہ اِک میرا کیا ہے
بدگماں آپ کب تھے یوں پہلے
مجھ سے آخر ہوئی خطا کیا ہے
کوئی اس میں نہیں تمنا اب
اس دل زار میں بچا کیا ہے
اُس کی آنکھیں بتا رہی ہیں صاف
راز کوئی بھی اب چھپا کیا ہے
دل پہ ہر اک ستم سہا ہے ہتاش ؔ
سوچتا ہوں میں رہ گیا کیا ہے
پیارے ہتاشؔ
دوردرشن لین، جانی پور جموں
موبائل نمبر؛8493853607
کبھی چلنا جہاں مُشکل ہوا ہے
وہی رستہ میری منزل ہوا ہے
مخالف ہو گئی ہے ساری دُنیا
یہی حق گوئی کا حاصل ہوا ہے
وفا میں کیسے بدلے وہ جفائیں
کبھی طوفان بھی ساحل ہوا ہے
کسی کے حق میں نکلی ہیں دُعائیں
کہ جب بھی ٹُکڑے ٹُکڑے دل ہوا ہے
نہیں دیکھا روبینہؔ تھا یہ منظر
کہ اِنساں اِنساں کا قاتل ہوا ہے
روبینہ ؔمیر
منڈی پونچھ، موبائل نمبر؛7006056715
تمام شہر کو یوں ہی ذلیل ہونا تھا
مسیحِ وقت کی خاطر علیل ہونا تھا
معجزے کے لئے رہ گزار میں تبدیل
خدا کے حکم سے دریائے نیل ہونا تھا
کسی مقامِ محبت تلک پہنچنے میں
قدم قدم پہ ہمیں بھی ذلیل ہونا تھا
یہ وہ سفر تھا جہاں صرف پیش قدمی تھی
نہ راہبر نہ کوئی سنگِ میل ہونا تھا
وہ امتحانِ محبت سے بھی بہت گزرے
جنہیں ہماری طرح خود کفیل ہونا تھا
ترا کرم ہے پرندوں کے غول سے یا رب
ہلاک لشکرِ اصحابِ فیل ہونا تھا
انھیں کے جام بھی چھلکے ہیں جام میں جن کے
جناب بنتِ عنب کو قلیل ہونا تھا
ہماری موت کے اسباب میں بحر صورت
نگاہِ ناز کو مصداقؔ جھیل ہونا تھا
مصداقؔ اعظمی
اعظم گڑھ، یو پی
موبائل نمبر؛9451431700
تضمینی غزل
بر مصرع افتخار عارف
غضب کا طرز ہے اس دلربا کے لہجے میں
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
زبانِ یار ہے کیا؟ خوش نوا کے لہجے میں
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
وہ جھوٹ کہتا ہے لیکن بڑے سلیقے سے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
وہ کج ادائی بھی کرتا ہے خوش نمائی سے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
فدا ہیں طرزِ تکلم پہ اس کے دشمن بھی
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
جفا کی بات بھی کرتا ہے باوفا جیسا
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
عجب ہُنر ہے وہ انداز بے وفائی کا
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
امیرِ شہر بھی کرتا ہے اس کی دلجوئی
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
الگ یہ بات کہ ہے بے وفا صنم شاہد ؔ
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
علی شاہد ؔ دلکش
موبائل نمبر؛8820239345
یہ اچانک ہُوا ہے کیا مجھ کو
کچھ پتا تو چلے خدا مجھ کو
میں نے کوشش بڑی کی تھی، پر عشق
ایک ہی شخص سے ہُوا مجھ کو
کوئی پوچھے اُسے وفا کیا ہے؟
کہہ رہا ہے جو بے وفا مجھ کو
کسی کے سامنے رہا ہر پل
اور کوئی ڈھونڈتا رہا مجھ کو
کوئی بے حد دُکھی ہُوا مجھ سے
کوئی دیتا رہا دُعا مجھ کو
کوئی پاگل سمجھ کے چل پڑا اور
کوئی سنتا رہا کھڑا مجھ کو
صرف اِندرؔ کا ہی سہارا تھا
وہ بھی اک دن بھُلا گیا مجھ کو
اِندرؔ سرازی
پرشولہ، ڈوڈہ، جموں کشمیر
موبائل نمبر؛7006658731
ابھی خط ملا ناز نخروں سے ہم کو
بلاوا ہے اس میں پہاڑوں سے ہم کو
پہاڑوں سے ہم کو ہے یاری پرانی
تبھی ڈھونڈتے ہیں چراغوں سے ہم کو
ہے جانا ضروری مجھے، کوہ دیتا
حیاتِ سکوں ہے ہواؤں سے ہم کو
میں یوں ہی نہیں جاتا ہوں سیر کرنے
کشش ہے غضب کی چٹانوں سے ہم کو
چلو ساتھ یارو فقیروں سے ملنے
وہ ملتے ہیں اکثر پہاڑوں سے ہم کو
یہ جو پتھروں کو پھٹاتی ہیں نظریں
کرو دور اب اِن نگاہوں سے ہم کو
بہت دور رہنے میں اب جا رہا ہوں
نکالو خدارا خیالوں سے ہم کو
مرے دوست شاداںؔ میں بھی ہوں مسافر
چلو ساتھ ہے ربط اوروں سے ہم کو
شاداںؔ رفیق
بلکوٹ اُوڑی بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛8491982514
جستجو تیری نہ جانے یہ کہاں تک پہنچے
جب خیال آیا تو پھر کوہ گراں تک پہنچے
کس میں ہمت تھی کہ وہ تاب نظارا لاتا
میرے آقا ہی ترے راز نہاں تک پہنچے
التجا ہے مری تربت پہ ضرور آ جانا
یہ جنازہ مرا جب اصلی مکاں تک پہنچے
ڈال آئے تھے کنویں میں جو ہوس کی خاطر
قحط سالی سے وہ مجبور وہاں تک پہنچے
حمد پڑھتے ہیں پرندے بھی خدایا تیری
وہ عبادت نہ کسی وہم و گماں تک پہنچے
ہے دعا ماں کی اگر ساتھ میں شبنمؔ تیری
یہ تخیل کی ہے پرواز کہاں تک پہنچے
شاہینہ خاتون شبنم
شاہجہاں پور، یو پی
موبائل نمبر؛9415598203