غزلیات

کھولی کلی نے بند ابھی تک  قبا نہیں 
طائر کا انتظار بھی لیکن تھکا نہیں 
 
بنیاد جس کی سنگِ عداوت پہ ہو کھڑی 
نقشے پہ دل کے ایسا کوئی گھر بنا نہیں 
 
پرواز جس کی اَمن کی سرحد پہ تھم گئی 
پھر ہاتھ وہ سفید کبوتر لگا نہیں 
 
چادر فلک کی بانٹ دی اسلاف نے مگر 
تقسیم کرگئے ہیں یہ دھرتی، ہوا نہیں 
 
احساس الفتوں کا وہی ہے ابھی تلک 
دونوں نے بیچ دی ہے محبت، اَنا نہیں 
 
آواز جارہی ہے سُلگنے کی دور تک 
آتش لگی ہے شہر میں لیکن جلا نہیں 
 
سیلاب آگیا ہے عداوت کا ہر طرف 
طوفان تیرے دل میں ابھی تک اُٹھا نہیں 
 
اشرف عادلؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل 
سرینگر کشمیر ،موبائل نمبر؛9906540315
 
 
 
ابھی اک فن سلامت ہے ابھی فنکار زندہ ہے
مری زنجیر کے حلقوں میں بھی جھنکار زندہ ہے
 
حقیقت ہے مسلسل طنز کے گھیرے میں رہتا ہوں
مگر اتنا سمجھ لیجئے ابھی کردار زندہ ہے
 
مرے تن پر یہ مٹی ڈال دینا پر ابھی ٹھہرو
مری آنکھوں میں اب بھی حسرتِ دیدار زندہ ہے
 
مجھے مرنے نہیں دے گا تُمہارا اِس طرح تکنا
نظر کے تیر کھا کر بھی ترا بیمار زندہ ہے
 
مرے دشمن! یہ سانسیں ٹوٹتی ہیں پھر ابھرتی ہیں
جِسے تم نے مٹایا تھا مری سرکار زندہ ہے
 
تمہیں جاوید ؔکس نے کہہ دیا ہستی مٹا دیں گے
یہ لشکر مٹ نہیں سکتے ابھی سالار زندہ ہے
 
سردار جاوید خان
 مہنڈر پونچھ
رابطہ؛ 9419175198
 
کیا ہوا؟ کچھ نہیں
سچ بتا کچھ نہیں 
عشق ہے آپ سے 
کیا کہا؟ کچھ نہیں
بن تِرے زندگی 
بول نا کچھ نہیں 
فالتو بے شمار 
کام کا کچھ نہیں 
عشق کا تاپ ہے 
عارِضہ کچھ نہیں 
عادتاً ہوں خفا 
پر گلہ کچھ نہیں 
عشق کے کھیل میں 
فائدہ کچھ نہیں
تم سے اک کام تھا 
چھوڑ یار کچھ نہیں 
عشق تھا اب مگر 
غم سوا کچھ نہیں 
فلسفہ عشق کا 
ہے پتہ؟ کچھ نہیں 
 
اِندرؔ سرازی 
ضلع ڈوڈہ، پریم نگر 
موبائل نمبر؛7006658731
 
 
چاہت نہیں رہی وہ عبادت نہیں رہی 
دل کو مگر کسی سے عداوت نہیں رہی
تم تھے تو خود سے روٹھتے  تھے ہم کبھی کبھی
تم کیا گئے کہ ایسی اب فرصت نہیں رہی
وہ لمحے ، دیکھتے  تھے تجھے  چاند کی طرح 
اب چاند دیکھنے کی بھی حسرت نہیں رہی
ملنے کی کبھی ہم کو بھی رہتی تھی حسرتیں 
حسرت کہ ویسی بھی ہمیں حسرت نہیں رہی
دل بعدِ ہجر تیرگی میں ایسا غرق ہے
گھر کوبھی روشنی کی ضرورت نہیں رہی 
اْس شام کیا ہوا کہ رقابت ہی مر گئی
آندھی کو بھی چراغوں سے رغبت نہیں رہی 
ایسا گرایا عشق کے پندار نے  کہ بس 
خوابوں میں میری پھر وہ حقیقت نہیں رہی
آئی بہار اب کے مگر اس طریق سے 
پھولوں کو خوشبوئوں کی کچھ چاہت نہیں رہی
وہ ایک یار ہم جسے رخصت نہ کر سکے 
 ایسے گیا کہ خود میں ہی ہمت نہیں رہی 
عالم یہ ہے کہ دل میں بھی آتے ہیں زلزلے 
آنکھوں میں اب وہ پہلی سی وسعت نہیں رہی
 
راقم حیدرؔ
حیدریہ کالونی، شالیمار ،موبائل نمبر؛9906543569
 
 
آنکھوں میں کردار نمایاں دکھتا تھا
مجھ کو وہ ہر بار نمایاں دکھتا تھا
ہنسنے سے تو لگتا تھا کہ دشمن ہے
روتا تھا تو پیار نمایاں دکھتا تھا
پھر بھی میں نے راز ہی رکھا باتوں کو
جب کہ وہ غمخوار نمایاں دکھتا تھا
جس نے بھی چاہا اُس نے آخر چھوڑ دیا
دل کا بس اک تار نمایاں دکھتا تھا
ہوں کیسے بھی حالات ولیکن دکھنے میں
ہر سو وہ مجھ کو یار نمایاں دکھتا تھا
اس سے ملنے جب میں آخری بار گیا
مجھ سے وہ بیزار نمایاں دکھتا تھا
درد نے آ کر پاس میں ڈیرے ڈال دیئے
غم میرا شاہکار نمایاں دکھتا تھا
سارے شہر کی حالت تابشؔ خستہ تھی
لیکن اک بازار نمایاں دکھتا تھا
 
جعفر تابش
مغلمیدان کشتواڑ،
موبائل نمبر؛ 8492956626
 
 
دلوں کو موم کرنے کا کاروبار چلے 
محبتوں کا سلسلہ بھی آر پار چلے 
 
یہ کیا کہ ہر وقت تیرا حکم جاری ہے 
کبھی تو میرا بھی کچھ اختیار چلے 
 
اک عرصہ کیا ہجر نے ہے منجمد اور پھر 
بڑے دکھوں سے ہم خود کو سنوار چلے 
 
یہی تو حادثہ ہے کہ حادثہ ہو کر بھی 
ہوئی جو شام تو سبھی غمگسار چلے 
 
جہاں میں کیا ضرورت ہے عزرائیل کی اب
قدم قدم پہ انساں انسانوں کو مار چلے 
 
گزرتی کیسے یہ زندگی یوں ہی خوشحال ؔ
ہم اپنے دل میں ایک درد اُتار چلے 
 
میر خوشحال احمد 
کرناہ دلدار 
موبائل نمبر؛9622772188