شبِ ہجراں کی سیاہی کو مٹانے کے لیے
لوگ نکلے ہیں چراغوں کو جلانے کے لیے
کون پھرتا ہے سرِ شام مری بستی میں
کون آیا ہے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے
تیرے ہاتھوں کی جو مہندی ہے اُتر جائے گی
خون کیا کم تھا ہتھیلی پہ سجانے کے لیے
مجھ سے ایک بار کو بچھڑا تو بچھڑتا ہی گیا
میں نے کیا کچھ نہ کیا جاں تجھے پانے کے لئے
امتحاں اور لیے جائیں گے آخر کب تک
کوئی حد بھی تو مقرر ہو دیوانے لے لیے
آخری رسمِ محبت تو نبھاتے جائو
کون آئے گا مری خاک اُڑانے کے لیے
ایک پیماں ہے کہ مرنے نہیں دیتا جاویدؔ
اب تو جینا ہے مراسم کو نبھانے کے لیے
سردار جاوؔید خان
پتہ مہینڈھر پونچھ، رابطہ 9419175198,9697440404
قہر یوں نفرتوں کا برسا ہے
آدمی آدمی کو ترسا ہے
پھر وہ سرحد نشیں ہوئی توپیں
پھر یہ کچا مکان لرزا ہے
صبحِ صادق پہ چھا گیا ماتم
رات دشتِ جنون گرجا ہے
تیری فرقت میں ملا زخمِ جگر
تیرے ملتے ہی پھر سے ابھرا ہے
کیسے راہی کو میسر ہو مقام؟
کارواں بے نشاں ہی گزرا ہے
پیکرِ یار کیا بتلائیں آفاق
چاند جیسے زمیں پہ اُترا ہے
آفاقؔ دلنوی
دلنہ بارہمولہ کشمیر،7006087267
اِتنے شرمیلے ہو گئے ہیں
سر تا پا گیلے ہو گئے ہیں
جب سے برفیلے ہو گئے ہیں
رستے نوکیلے ہو گئے ہیں
شیر شیریں سے سانپ پالے تھے
پھِر بھی زہریلے ہو گئے ہیں
زہر اتنا بھرا ہے اب ہم میں
کپڑے تک نیلے ہو گئے ہیں
تم بھی کم کم بول رہے ہو
ہم بھی شرمیلے ہو گئے ہیں
ایک تم ہی نہیں عشق میں اِندرؔ
ہم بھی چوٹیلے ہو گئے ہیں
اِندرؔ سرازی
پریم نگر،ضلع ڈوڈہ،جموں
موبائل نمبر؛7006658731
پھیرو نہ اس نظر کو دل میں چُبھا چُبھا کے
مرتے ہیں جس نظر پر جی جاں لُٹا لُٹا کے
رہ رہ کے یاد آتی ہیں، وہ شوخ سی ادائیں
گھونگھٹ میں مسکرانا مُکھڑا چُھپا چُھپا کے
اُف کہہ کے ہاتھ جھاڑا بے باک گفتگوپر
دانتوں کے نیچے ہائے وہ انگلی دبا دبا کے
اے کاش لوٹ آتیں وہ بے قرار گھڑیاں
ملنے کا شوق رکھنا خود کو سجا سجا کے
وہ تجھ کو چھیڑنے کا کچھ ڈھونڈنا بہانہ
شکوے پہ کرنا شکوہ باتیں بنابنا کے
کیسی طلب ہے تیرے دیدار کی نہ پوچھو
رستے میں رکھ چلے ہیں پلکیں بچھا بچھا کے
مدہوش کردے ایسا مستی بھری نظر سے
آنکھوں میں ڈوب جائیں سب کچھ بُھلا بُھلا کے
گرمی کے موسموں میں پگھلے گی یخ ضروری
کب تک رکھیں گے دل میں دِل کی چُھپا چُھپا کے
خورشید ؔکس طرح سے معصوم دِکھنے والے
کرتے ہیں خود کو ٹھنڈاتجھ کو جلا جلا کے
سید خورشید حسین خورشیدؔ
چھمکوٹ، کرناہ، موبائل نمبر؛8899939647
کس سمت لے رہا ہے یہ میرا سفر مجھے
دِکھتا نہیں ہے کوئی تاحدِ نظر مجھے
ہوگی طلب جہان کی کیا اس قدر اُسے
اب حال پوچھتا نہیں ہے ہمسفر مجھے
تھک ہار کے سوجاتی ہیں جب خواہیش سبھی
اک دم سے جگا دیتا ہے یہ میرا گھر مجھے
منزل کی جستجو میں ہوں، لیکن نہ جانے کیوں؟
لگتی ہے ہر مقام پر اُسکی نظر مجھے
صورت میں تو انسان ہے، سیرت میں فرشتہ
ایسا گمان ہوتا ہے آٹھوں پہر مجھے
انسان آدمی سے بنے گا تو اے آزادؔ
پیغام لے کے آیا ہے اک نامہ بر مجھے
آزادؔ شوکت ملک
زلنگام، کوکرناگ، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9682147144
مرحلہ جو خوف کا تھا ٹل گیا
اپنا رشتہ عشق میں جو ڈھل گیا
سانس بن کر ہے وہ لمحہ میرے ساتھ
داستان کیا چھوڑ کر وہ پَل گیا
کس ادا کا ہے کرشمہ آپ کی
عاشقی سے عقل کا ہی بَل گیا
جلوہ اُن کا ہوش پر غالب ہوا
سُرمئی پلکوں کا جادو چَل گیا
رازِ ہستی کُھل گیا اُس پر نوازؔ
آتشِ آوارگی میں جل گیا
شہنواز احمد
شالی پورہ، کولگام،موبائل نمبر؛9596393985