عالمِ اسلام میں قیادت کا فقدان

چھٹی صدی عیسوی میں جب دنیا تیزی کے ساتھ ہلاکت کے غار کی طرف جارہی تھی اور رروئے زمین پرکوئی طاقت نہ تھی جو گرتی ہوئی انسانیت کا ہاتھ پکڑ سکے ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے دنیا کو ایک ایسی جماعت کی قیادت عطا فرمائی جو آسمانی کتاب اور الہٰی شریعت و قانون رکھتی تھی ،جس کا ہر قدم خدا کی بخشی ہوئی روشنی میں اٹھتا تھا اور اْجالے میں پڑتا تھا، جو دنیا میں حق و انصاف کی علمبردار تھی،جو حکومت و قیادت کے منصب پر نبوت کی مستحکم اخلاقی تربیت اور دین کی مکمل تہذیب نفس کے بعد فائز ہوتی تھی ،جو کسی قوم کی خدمت گذار اور کسی نسل و وطن کی نمائندہ نہ تھی ،جس کو انسانیت کا معقول ترین مزاج اور متوازن ترین طبیعت عطا ہوئی تھی۔
اس جماعت کے وجود نے نوعِ انسانی کی مجموعی ہلاکت کے راستہ میں فوری روک کا کام دیا اور بتدریج انسانیت کو صدیوں تک کے لئے ان تمام فتنوں اور خطرات سے محفوظ کردیا جو عالم پر محیط تھے۔اس نے صحیح منزل کی طرف انسانوں کو ساتھ لے کر بڑھنا شروع کیا۔اس کے اقتدار میں انسانیت کو متوازن ترقی ہوئی اور انسان کی تمام ظاہری و باطنی قوتوں نے ہم آہنگی اور تناسب کے ساتھ نشو ونما اور ترقی حاصل کی اور ایک ایسا موحول قائم ہوا، جس میں انسان کے لئے سہولت اپنے کمال انسانی تک پہنچنا ممکن ہوا۔اس جماعت کے اثر و نفوذ سے زندگی کا دھارا اور دنیا کی سمت بدل گئی۔اعلیٰ اخلاقی نمونے معیار کا کام دینے لگے۔اس کے دور تمدن میں تجارت و صنعت کے ساتھ اخلاق و فضیلت کو بھی عروج ہوا اور فتوحات کی وسعت اور تمدن کی ترقی کے ساتھ اخلاق و روحانیت نے بھی یکسان فروغ پایا۔خدا پرستی و پاکیزگی کی راہ جو جاہلیت کی حکومت و اقتدار میں کانٹوں سے بھری اور مدت سے سنسان پڑی تھی، بے خطر شاہراہ بن گئی۔دین کی دعوت میں مقناطیس کی کشش اور اخلاقی تربیت و اصلاح میں ایک زبردست طاقت پیدا ہوا ،جس نے لاکھوں نفوس کو بہیمت کی زندگی اور اخلاق کی پستی سے اٹھاکر روحانی اور اخلاق ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچایا۔
انسانی جو ہر کی کمالات علم و ذہانت اور طبیعت کی جولانی نے جو عرصہ سے ضائع یا بے محل صرف ہورہی تھی ،صحیح رْخ اختیار کرکے دنیا کو حقیقی ترقی دی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں کمزوری آئی، مثلاً قیادت میں کمزور،اخلاق میں کمزور ،سیاست میں کمزور اور پیشہ ور صفتوں میں کمزور وغیرہ۔اور دنیا کی امام قیادت مسلمانوں کے بعد مغرب کی ان قوموں نے اپنے ہاتھ میں لی ،جن کے پاس ابتدا سے حکمت الٰہی کو کوئی سرمایہ اور علم صحیح کا کوئی صاف چشمہ نہ تھا۔نبوت کی روشنی وہاں دراصل پہنچ ہی نہیں پائی۔حضرت مسیح ؑکی تعلیمات کی ایک شعاع جو وہاں پہنچی بھی ،وہ تحریف و تاویل کے اندھیریوں میں گم ہوگئی۔اخلاقی و دینی تعلیمات سے محرومی اور صدیوں کی بے تربیتی کے ساتھ علم و صنعت تحقیق و اکتشافات کی ترقی سے قوت و اخلاق میں کوئی توازن باقی نہیں رہا۔انسانوں نے پرندوں کی طرح ہوا میں اْڑنا اور مچھلیوں کی طرح پانی میں تیرنا سیکھ لیا لیکن آمیوں کی طرح زمین پر چلنا بھول گئے اور بے قید اور بے شعور عقل و علم نے ہر رہزن اور قفل شکن کو قفل شکنی کا آلہ اور ہر بد مست کو تلوار مہیا کی۔سائنس نے بیسویں صدی کے شریر اور نادان انسانوں کو کھیلنے کے لئے دھاردار اور خطرناک اوزار تقسیم کئے،جن سے وہ اپنے کو بھی زخمی کررہے ہیںاور اپنے بھائیوں کو بھی۔اس وقت کوئی ایسی طاقت ور قوم یا جماعت جو ان مغربی قوموں سے عقائد و نظریات کا اختلاف رکھتی ہو،منظر عام پر نظر نہیں آتی۔ایسی قوم یا جماعت اس وقت یورپ میں پائی جاتی ہے نہ افریقہ اور ایشیا میں نہ ہندوستان میں۔سب اس جاہلی فلسفہ اور اس مادہ پرستانہ نظام حیات کے قائل و معتقد ہیں یا ہوتے جارہے ہیں۔
اسلامی ممالک میں بھی مغربی مادیت اپنی پوری شان کے ساتھ دیکھنے میں آتی ہے۔خواہشات نفس کی اندھا دھند پیروی زندگی کی نہ بْجھنے والی پیاس اور نہ مٹنے والی بھوک اس قوم میں بھی پیدا ہوتی جارہی ہے جس کے نزدیک آخرت کی زندگی اصل زندگی ہے۔مغربی علوم اور تہذیب کے اثر سے آخرت کا خیال روز بروز کمزور ہوتا جارہا ہے اور دنیا کی اہمیت اور کشش بڑھتی جارہی ہے اور مسلمان یورپ کے نقشِ قدم پر چلنے پر فخر محسوس کررہے ہیں۔لیکن یہ سارے نقائص ہونے کے باوجود مسلم قوم اسی طرح باقی ہے جو اب بھی لادین قوتوں اور قوموں کو چیلنج کررہی ہے۔مسلمانوں کا دینی سرمایہ اور آسمانی ہدایت و حکمت کا سرچشمہ محفوظ ہے۔رسول اللہ ؐ کی سیرت اور صحابہ کرام کی زندگی جس میں پوری امت کی تخلیق کی قوت ان کے پاس موجود ہے۔لادین قوموں کے خلاف اگر کوئی نقشہ ہے تو صرف مسلمانوں کے پاس ہے ،اگر چہ مسلمان خود اس کو بھولے ہوئے ہیں۔مسلمان اپنے دین سے موجدار ہیں،جس دن وہ بیدار ہوں گے اور اپنا فرض منصبی انجام دیں گے وہ مشرق اور مغرب کی قوموں کے لئے روز حساب ہوگا۔انہیں کے خاکستر میں وہ چنگاری دبی ہوئی ہے جو کسی نہ کسی دن بھڑک کر جاہلیت کے خرمن کو جلاکر خاک کردے گی۔
یہ وہی پیغام ہے جو محمد رسول اللہ ؐ نے چودہ سو برس پہلے اس کے حوالہ کیا تھا۔یہ ایک بڑا طاقتورواضح اور روشن پیغام ہے جس سے زیادہ منصفانہ بلند و برتر اور مبارک پیغام اس پورے عرصہ میں دنیا نے کسی کی زبان سے نہیں سْنا۔اس پیغام میں آج بھی ایک حرف کی کم پیشی کی ضرورت نہیں، آج کی اکیسویں صدی کی دنیا کے لئے بھی وہ ایساہی نیا اور تازہ اور مناسب حال ہے جیسا چھٹی صدی مسیحی دنیا کے کے لئے تھا۔آج بھی لوگ تراشیدہ اور ناتراشیدہ بتوں کے سامنے سر بسجود ہیں۔آج بھی اللہ واحد کی بندگی اجنبی و ناموس ہورہی ہے۔آج بھی غیر اللہ کی عبادت و طاقت کا بازار گرم ہے۔آج بھی اھبار و ہبان عالم درویش مللوک و سلاطین ،صاحب طاقت اور اہل دولت ،زعماء و قائدین ،سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر ’’اَربابْ من دون اللہ ‘‘ بنے ہوئے ہیں ۔
آج عالم انسانیت اپنی وسعت ،وسائل سفر کی فراوانی ،نقل و حرکت کی آسانی اور اقوام و ممالک کے قرب و اتصال کے باوجود پہلے سے کہیں زیادہ تنگ ہے۔یہ لادین قوتیں وسائل معیشت اور خوراک کے سرچشموں اور ذخیروں پر قابض ہیں ۔بے شک آج بھی مذاہب کی ناانصافی سے اسلام کے عدل و انصاف کی طرف لانے کی ضرورت ہے، اس روشن خیال اور ترقی یافتہ زمانہ میں بھی ایسے مذاہب پائے جاتے ہیں جن کے عقائد و تعلیمات مضحکہ خیز ہیں۔جو اپنے پیروں کو بے عقل اور بے شعور جانوروں کی طرح قابو میں رکھتے ہیں اور ان کو اپنے عقل و تفکر سے کام لینے کی اجازت نہیں دیتے۔سیاست میں بھی ایسا نظر آتا ہے جب کسی پارٹی یا اصول کا اقتدار قائم ہوتا ہے تو مخالف جماعت کو زندگی کا حق بھی نہیں دیا جاتا اور اس کو اپنے اختلاف کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
آج بھی عالم اسلام کا پیغام خدائے واحد کی عبادات اور اطاعت مطلق اللہ پیغمبروں کی رسالت ،بالخصوص آخری اور سب سے بڑے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آخرت کے عقیدہ پر ایمان لانے کی دعوت ہے۔اس دعوت کو قبول کرنے کا انعام اور صلہ یہ ہوگا کہ عالم سار اتاریکیوں سے نکل کر، جس میں وہ صدیوں سے ہاتھ پائوں ماررہا ہے ،روشنی کی طرف آجائے گا۔اپنے جیسے انسانوں کی بندگی سے وہ نجات پاکر خدائے واحد کی بندگی کی نعمت پائے گا۔اعتقادی اور سیاسی مذاہب کی جکڑ بندیوں سے رہائی پاکر وہ دین فطرت اور شریعت الٰہی کے سایہ عدل میں جگہ پائے گا۔اب وقت آگیا ہے کہ یہ قیادت ان امانت دار،فرض شناس ،خدا ترس ،تجربہ کار ہاتھوں کی طرف منتقل ہو جو انسانیت کی جہاز رانی کے لئے روز اول سے بنائے گئے ہیں۔جس کی قیادت انسانیت کے معمار اعظم رحمت ِ عالم ؐ کے ہاتھ میں ہے۔جس کا ایمان دنیا کو اس وقت کی جاہلیت سے اسی طرح نکال سکتا ہے جس طرح اس نے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے نکالا تھا۔لیکن اس کارِ عظیم کے لئے عالم اسلام کو خود تیاری اور اپنے میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔اس کے لئے پہلی تیاری یہ ہے کہ عالم اسلام ،اسلام پر نیا اور تازہ ایمان لائے ،عالم اسلام کو نئے دین ،نئے پیغمبر ،نئی شریعت اور نئی تعلیم کی قطعاً ضرورت نہیں۔اسلام آفتاب کی طرح نہ کبھی پرانا تھا نہ اب پرانا ہے۔رسول اللہ ؐ کی نبوت دائمی اور آخری نبوت ہے ،آپ ؐ کا دین محفوظ ہے اور آپ ؐکی تعلیمات زندہ ہیں۔لیکن عالم اسلام کو بلا شبہ نئے ایمان کی ضرورت ہے۔نئے فتنوں ،نئی طاقتوں ،نئی ترغیبوں ،نئی دعوتوں کا مقابلہ کمزور ایمان اور رسوم و عادات سے نہیں کیا جاسکتا۔کوئی بوسیدہ عمارت کسی نئے طوفان اور کسی نئے سیلاب کو برداشت نہیں کرسکتی ،پھر داعی اور لیڈر کے لئے ضروری ہے کہ اس کو اپنی دعوت پر غیر متزلزل یقین ہو۔عالم اسلام اگر دنیا ئے انسانیت میں نئی روح اور نئی زندگی پیدا کرنا چاہتا ہے اور دنیا کی موجودہ مادہ پرستی اور شک و اضطراب پر فتح حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو اپنے اندر نئی ایمانی روح ،تازہ یقین اور نیا جوش و خروش پیدا کرنا ہوگا۔
عالم اسلام خدا ناشناس یورپ کا مقابلہ تمدن و تہذیب کے کھوکھلے مظاہر،مغربی زبانوں کی مہارت اور زندگی کے اس رنگ و ڈھنگ کے اختیار کرلینے سے نہیں کرسکتا۔عالم اسلام اپنے مدمقابل پر صرف اسی صورت میں غلبہ حاصل کرسکتا ہے کہ وہ اپنے حریف سے ایمان میں فائق ہو،زندگی کی محبت اس کے دل سے نکل چکی ہو ،خواہشات ِ نفسانی کے بند سے آزاد ہوچکا ہو ،اس کے افراد شہادت کے حریص ہون،جنت کا شوق ان کے دل میں چٹکیاں لیتا ہو ،دنیا کا فانی مال و متاع ان کی نگاہ میں وقعت نہ رکھتا ہو۔اللہ کے راستہ کی تکلیفیں اور مصیبتیں وہ ہنسی خوشی برداشت کرتے ہوں۔در حقیقت ایک خدا شناس منکر آخرت کے مقابلہ میں مومن کا یہی امتیاز ہے اور اسی بنا پر اس سے یہ توقع کی گئی ہے کہ اس میں برداشت کی طاقت زیادہ ہوگی۔
 مومن کی طاقت اور اس کے فتح و غلبہ کا راز یہ ہے کہ اس کو آخرت کا یقین اور اللہ کے اجر و ثواب کی امید ہوتی ہے۔آج عالم اسلامی کے قائدین و مفکرین اور اس کی جماعتوں اور حکومتوںکے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کا تخم دوبارہ بونے کی کوشش کریں۔جذبہ دینی کو پھر سے متحرک کریں اور پہلی اسلامی دعوت کے اصول و طریق کار کے مطابق مسلمانوں کو ایمان کی دعوت دیں اور اللہ و رسول ؐ اور آخرت کے عقیدہ کی پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ تبلیغ و تلقین کریں ،اس کے لئے وہ سب طریقے استعمال کریں جو اسلام کے ابتدائی داعیوں نے اختیار کئے تھے نیز وہ تمام وسائل اور طاقتیں کام میں لائیں جو عصر جدید نے پیدا کردی ہیں۔
یہ سب کرنے سے دنیا میں پھر ایک بار بلا ل وعما رجناب و خبیب ،صہیب و معصب بن عمیرؓ،عثمان بن مظلعون اور انس بن نظرؓکے جوش ایمانی اور ایثار و قربانی کے نمونے نگاہوں کے سامنے آئیں گے۔جنت کی ہوائیں اور قرون ِ اول کے ایمانی جھونکے دوبارہ چلیں گے اور ایک نیا عالم اسلام ظہور میں آجائے گا، جن سے موجودہ عالم اسلام کو کوئی نسبت نہیں۔موجودہ عالم اسلام کی بیماری ،پریشانی اور بے اطمینانی نہیںہے۔اس لئے ضرورت ہے کہ یہ مبارک کش مکش پھر پیدا کی جائے اور اس امت کا سکون برہم کیا جائے اس کو اپنی ذات اور اپنے وسائل کی فکر کے بجائے انسانیت کا درد و غم، ہدایت و رحمت کی فکر اور آخرت اور محاسبہ الٰہی کا خطرہ پیدا ہو۔
رابطہ۔گوسو پلوامہ،فون نمبر۔ 9697713765