مدثر مرچال،سوپور
رواں سال دنیا بھر میں انتخابات کے حوالے سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں بھارت ، انڈونیشیا ، اسرائیل، جاپان اور اردون کے علاوہ امریکہ سمیت کئی بڑے ممالک میں انتخابات یا تو ہو ئےیا ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کے لگ بھگ ۲۰۰ کروڑ رائے دہندگان امسال اپنے من پسند امیداواروں کو چُننے والے ہیں۔چناوی ماحول کسی بھی ملک کے لئے تناو سے پُر رہتا ہے جہاںچناوی مہم کے دوران امیدواروں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ شفافیت کے ساتھ چُناو کرانا ایک بڑا چیلنج مانا جاتا ہے اور اس دوران کسی چھوٹی سی غفلت کے باعث بہت بڑا سانحہ ہونے کا ندیشہ رہتا ہے۔ایسا ہی ایک سانحہ گزشتہ سنیچر ۱۳؍ جولائی کو امریکہ میں صدارتی انتخابات کے چناوی پرچار کے دورا ن ہوتے ہوتے رہ گیا ۔در اصل امریکہ کے پینسلوانیہ میں گزشتہ سنیچر یعنی ۱۳ جولائی کو سابقہ امریکی صدر اور ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت بال بال بچ گئے جب ان پر چناوی ریلی کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا۔ مذکورہ حملے میں صدارتی امیداوار ٹرمپ کو معمولی چوٹ آئی، جب کہ دو تماش بین شدید زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شخص موقعہ پر ہلاک ہوا۔ ٹرمپ کی تقریر کے لئے سجے سٹیج سے محض ۱۵۰ میٹر دور ایک عمارت کی چھت سے حملہ آور نے پے در پے گولیاں چلائیں جن میں سے ایک گولی ٹرمپ کے کان کو چھو کر نکلی اور باقی گولیاں چند ناظرین کے جسموںمیں پیوست ہوئیں۔ حملہ آور جو کہ ایک ۲۰ سالہ نوجوان تھا ، کو بروقت جوابی کاروائی میں مار گرایا گیا۔ حملے کے بعد کئی سماجی اور سیاسی شخصیات نے معاملے کی مذمت کی، جس میں سابقہ صدر باراک اوبامہ کے علاوہ موجودہ صدر جو بائیڈن بھی شامل ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والا حملہ اگر چہ کسی امریکی صدر یا صدارتی امیدوار پر ہونے والا پہلا حملہ نہیں ہے لیکن ایسے واقعات کا امریکہ جیسے ملک میں پیش آنامعمولی بات نہیں ہے۔
اس سے قبل جو امریکی صدورقتل کئے گئے ان میں ابراہم لنکن(1865 )، جیمز گرفیلڈ (1881) ، ولیم میک کنلے(1901 ) اور جون کینیڈی (1963 ) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ کے کئی سیاسی راہنماوں اور صدور پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں جن حملوں میں وہ بال بال بچ گئے۔ ان میں ۱۹۱۲ء میں تھیوڈر روزویلٹ پر ہوا حملہ بھی قابلِ ذکر ہے۔غرض امریکی تاریخ میں صدر یا صدارتی امیدوار پر قاتلانہ حملہ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ہونے والے حالیہ حملے نے کئی سوالات کو جنم دیا ، مثلاً ایک سابقہ صدر کی ریلی کے لئے کیا گیا حفاظتی بندوبست اتنا کمزور کیسے تھا کہ حملہ آور اتنا قریب پہنچ پایا؟ یا ۲۰ سالہ تھومس میتھیو کروکس کے پاس ڈونلڈ ٹرمپ پر حملہ کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ خیر یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ٹٹولنے میں امریکی خفیہ ایجنسی FBIاور ٹرمپ کی حفاظت پہ معمور سیکریٹ سروس واقعے کے بعد سے ہی جُٹی ہوئی ہے اور دیر سویر ان سوالوں کا جواب مِل ہی جائے گا۔فی الحال یہاں جو بات زیرِ بحث ہے وہ ہے ڈونلڈ ٹڑمپ پر ہوئے حملے کے پیچھے کی ممکنہ وجہ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک سنکی مزاج اور سخت گیر سیاستدان ہیں جو امریکی صدر کے طورپر ایک مکمل طاقت والے تاناشاہ کی صورت میں اُبھرنا چاہتا ہے بلکہ امریکہ کے لگ بھگ ہر ادارے کا کنٹرول از خودسنبھال کر امریکہ کا ہٹلر بننا چاہتا ہے جس کا اشارہ اس کے کئی بیانات میں ملتا ہے ۔ ٹرمپ اپنی تاناشاہی اور Absolute Control کا جواز خود امریکی آئین کے دفعہ دوم (Article II)سے نکالتا ہے جس میں لکھا ہے ، “the executive power shall be vested in president of United States of America” ۔ اسے عرفِ عام میں Unitary Executive Theory کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی ماسٹرپلان کی ایک کڑی کے مطابق ۲۰۲۴ء کے صدارتی چناو کے دوران ٹرمپ جس راستے پہ چل پڑے ہیں وہ نہ صرف ٹرمپ کے لئے پُر خطر ہے بلکہ اگر وہ کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کو پاتے ہیں تو امریکہ کا سیاسی نقشہ یکایک بدل سکتا ہے۔ٹرمپ کے لئے جو روڈ میپ تیار ہوا ہے اسے PROJECT 2025 کے نام سے جانا جاتا ہے۔
PROJECT 2025 کیا ہے؟
یہ امریکی تھنک ٹینک The Heritage Foundation کی طرف سے تیارکردہ 900سے زائد صفحات پر مشتمل ایک دستاویز ہے جس میں آیندہ کی ٹرمپ حکومت کے لئے کُچھ اہم تجاویز درج ہیں۔ یا یوں کہیں کہ یہ اگلی ٹرمپ سرکار کا ماسٹر پلان ہے ۔ یہ دستاویز جس کا پورا نام “The Project 2025 : Mandate for Leadership, The conservative Promise” ہے ، اس میں امریکہ کے حکومتی ڈھانچے کو مکمل طور پر بدلنے کی سفارش کی گئی ہے۔اگرچہ ڈونلڈٹرمپ نے کئی بار Project 2025 سے اپنے آپ کو علاحیدہ کیا ہے لیکن ظاہری طور پر ٹرمپ اپنے آئندہ کے دورِ حکومت میں اسی دستاویز کو من و عن عملانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ دی ہیریٹیج فاونڈیشن کے صدر کیون روبرٹس نے مذکورہ دستاویز کی وکالت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ اس پروجیکٹ میں ان تمام لِبرل پالیسیوں کی تصحیح کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو امریکہ کے لئے ناسور ثابت ہو سکتی تھیں۔
Project 2025 میں آئیندہ چنندہ سرکار کے لئے جو لایحیہ عمل تیار کیا گیا ہے وہ چار ستونوں پر مشتمل ہے :
پہلا ستون ( پالیسی پلان):اس کے مطابق امریکی انتظامیہ میں بٹے اختیارات کے ڈھانچے کو منہدم کر کے چُنی ہوئی سرکار کو بلکہ صدر ٹرمپ کو مزید تقویت دی جائے گی۔کیونکہ پروجیکٹ 2025کے مرتب کرنے والی ٹرمپ لابی کا ماننا ہے کہ امریکہ کے انتظامیہ کے اندر لِبرل سوچ رکھنے والوں نے پورے ڈھانچے کو کمزور بنایا ہوا ہے اس لئے یہ لازمی ہے کہ یہ بوسیدہ ڈھانچہ منہدم کیا جائے۔ یعنی موٹے موٹے الفاظ میں کہا جائے تو Department of Homeland Security ، اور Department of Education کو ختم کیا جائے گا جبکہ FBI کے اختیارات کو محدود کر کے اسے محض ایک سیاسی Task Force میں بدلا جائے گا جس کی کمان امریکی صدر کے ہاتھ میں ہو۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے شعبے ہیں جو براہ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے کنٹرول میں آنے والے ہیں جن میں Department of Justice بھی شامل ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ٹرمپ کی نئی سرکار قانون و قانونی اداروں سے بالاتر ہو کر ایک تاناشاہی والی سرکار بننے والی ہے جن کے پاس اپنے سیاسی حریفوں کو سِرے سے ختم کرنے کی کھُلی چھُوٹ ہوگی۔
دوسرا ستون( ذاتی ڈیٹا بیس ): اس کے تحت امریکہ میں ایک ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا جس میں ہر شخص سے امریکی صدر(ٹرمپ) کے تئیں وفاداری کا حلف لیا جائے گا ۔ اس کام کے لئے Oracle نامی کمپنی کو ڈیٹابیس تیار کرنے کا باضابطہ ٹھیکہ بھی دیا جا چُکا ہے۔ Oracle نامی کمپنی کے ذریعے امریکی باشندوں ، افسروں اور عہدے داروں کو ایک فارم بھرنا ہوگا جس میں انہیں اس سوال کا بھی جواب بھرنا ہوگا کہ کیا وہ امریکی صدر کے تئیں وفادار ہیں۔
تیسراستون( آن لائین اکیڈمی):اس کے تحت امریکی Beaurucrates کو مخصوص نصاب کے تحت تیار کیا جائے گا جس کا مزاج Conservative حکومت کے عین مطابق ہو۔
چوتھا ستون ( صدارتی پلے بُک): صدارتی پلے بُک امریکی صدر کے پہلے 180دن کے پلان کو عملی جامہ پہنانے کا باب ہے، جسے Schedule F کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت ٹرمپ ایک حکم نامہ جاری کرنے والے ہیں جس کے تحت امریکہ کے بیوروکریٹس اور اونچے عہدوں پہ فائز افسران کی تقرری اس قدر عاضی ہو جائے گی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ذریعے انہیں کسی بھی وقت برخاست کیا جا سکے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ ۲۰۲۰ء میں اپنی پچھلی حکومت کے دوران ایسا ہے ایک حکم نامہ جاری کر چُکے ہیں۔ حالانکہ اس حکمنامے کو بعد میں جو بائڈن کی سرکار نے کالعدم قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ جو بڑی تبدیلیاں ٹرمپ کی اگلی سرکار کے ذریعے دیکھنے کو ملیں گی، ان میں Mass Deportation بھی شامل ہے۔ اس کے تحت کروڑوں غیر امریکی باشندوںکو ان کے آبائی ممالک کی طرف روانہ کر دیا جائے گا ۔
غرض ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی سیاست میں ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے امریکہ کی تصویر کو یکایک بدلنے کی ٹھان لی ہے ،اب اسے اُس کی خود غرضی سے تعبیر کیا جائے یا ایک انقلاب کی نظر سے دیکھا جائے وہ سوالِ دیگر ہے، فی الحال اس نے امریکی سیاست میں اس قسم کی ہلچل مچا رکھی ہے جو اُس کی اپنی صحت کے لئے مُضر ثابت ہو سکتی ہے۔ اب آنے والا کل ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
(رابطہ۔9149468735)
[email protected]