محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم ؐکی مبارک ذات تاریخِ انسانی میں واحد ویکتا شخصیت ہے جن کے مبارک ہاتھوں سے اسلام کا جامع و کامل انقلاب رونما ہوا اور س صالح انقلاب کے مراحل و مدارج کا نقش راہ آج بھی من وعن اپنی تمام جزئیات وتفصیلات کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ رب تعالیٰ نے جو ہدایت وشریعت آپؐکو عطا کی، اسے آپؐ نے رب کی نگرانی اورخاص الخاص رہنمائی میں اپنی پیغمبرانہ بصیرت کے ساتھ عملی اورنظر یاتی بنیادوں پر منتہائے کمال کو پہنچادیا۔ آپ نے انتہا درجہ کے تاریک زمانے میں دنیا میں اسلام و ایمان کی ظاہری و باطنی روشنیاں پھیلائیںاور علم و عدل،تہذیب و تمدن کا علم بلند کیا۔پھر اس دستور االعمل اور نظریۂ حیات کے زیر سایہ ایک ریاست کا قیام عمل میں لایا اور ساتھ ہی اس ریاست کی توسیع بھی عمل میں لائی۔لطف یہ کہ نبوت کا فریضہ جو مرتبہ کے اعتبار سے عظیم القدر،تحمل کے اعتبار سے عدیم المثال ،ادائیگی کے اعتبارسے مشکل ترین فریضہ ہے،اللہ تعالیٰ نے اس مشکل ترین کام میں سب سے زیادہ کامیابی اپنے آخری پیغمبر کو عطا کی گرچہ بظاہر دعوت اسلامی کے وسائل اورذرائع بہت کم تھے۔امریکی پروٹسٹنٹ بشپ بوسورتھ سمتھ نے نبی اکرمؐ کے کارنامے کا تذکرہ کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے :’’ محمدؐ کو ازحد توفیق نصیب تھی۔ تاریخ میں وہ ایک بے مثال نمونہ ہیں، آپ ؐنے بیک وقت تین طرح کی قیادتیں جمع کیں، ایک قوم کی قیادت وسربراہی، دوسری دینی قیادت اور تیسری حکومت وسلطنت کی قیادت۔آپؐ اُمی ہونے کے باوجود ایک ایسی کتاب لے کر آئے جو عبادت ،بلاغت اور قانون سازی کی جامع کتاب ہے اور جس کو دنیا کی آبادی کے چھٹے حصہ سے زیادہ لوگ مقدس مانتے ہوں۔‘‘
اس عظیم کام کے لیے آپؐ نے صحابہ کرام ؐ کی مقدس و کارکشا نرسری تیار کی۔ اس کھیپ کا انتخاب ایک ایسی قوم سے ہوا جو اس وقت دنیا میں اخلاقی اعتبار سے رزیل ترین قوم متصور کی جاتی تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو صحبت ِرسولؐ اور اقامت دین کے لیے منتخب کیا تو یکایک جاہل، بے مایہ اور صحرانورد قوم دنیا کی ہمہ گیر قیادت کا مرکز بن گئی۔ایک مستشرق اس گروہِ عظیم کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے ’’وہ غریب مویشی چرانے والے لوگ جو ابتدائے آفرینش سے گمنامی کی حالت میں مارے مارے پھرتے تھے،ان میں ایک ہیرو پیغمبر بھیجا گیا جو اپنے ساتھ ایک ایسا پیغامِ حیات آفریں لایاجس پر وہ یقین کر سکتے تھے اور دیکھو! جنہیں کوئی توجہ نہ دیتا تھا وہی عالمگیرتوجہ کے حقدار ہوگئے،جو حقیر اور کم تر تھے ،وہ دنیا کی نظروں میں معززاور ممتاز بن گئے۔ یہی وہ قدسی صفات تھے جنہوں نے اسلام کی آواز پر رسولِ رحمت ؐ کے ہمراہ اپنی شخصی عظمتوں ، آہنی قوتوںا ور اخلاقی بر تریوں سے تاریخ عالم کی کایا پلٹ دی۔
’’ہم نے رسولؐ سے تنگی اور آسانی ،خوشی اور نا خوشی حتیٰ کہ اپنے اوپر کسی کو ترجیح دینے کے باوجود سمع و طاعت پر بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ اولی الامر سے اختیارات کے معاملے میں نزاع نہ کریں گے،الایہ کہ اللہ اور رسولؐ کی واضح خلاف ورزی دیکھیں ۔اس کے بارے میںہمارے پاس خدا کی طرف سے دلیل موجود ہو ،اور جو بات کہیں گے حق کہیں گے، جہاں کہیں بھی ہوں۔اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کریں گے‘‘( راوی عبادہ بن الصامت ؓ)۔
انسانی زندگی کواسلامی اصولوں پر گامزن کرنے کے لیے جو طریقہ رسولِ رحمتؐ نے انسانیت کے سامنے پیش کیا ، اُسی اسوۂ حسنہ کو بنی آدم کی فوز و فلاح کا واحدذریعہ قرار دیا گیا۔اصحاب رسول ؐنے نبی اکرمؐ سے اسی اطاعت ، اتباع اوراس پر تسلیم و رضا اور محبت و جانثاری کا عہد لیا تھا۔ یہ اس عظیم مشن کی آبیاری کا عہد تھا۔ کلام اللہ اور اسوۂ رسول ؐکو حرفِ آخر کی حیثیت سے ماننے اور اسے منوانے کے لیے دعوت و تبلیغ و تفہیم اور جہد مسلسل کے ذریعے ان پر حجت قائم کرنے کا عہد تھا، حالات چاہے موافق ہوں یا مخالف ہر حال میں اس کو دوسروں تک پہنچانے اور اس دین حق کی حقانیت پر ایمان و اعتقاد رکھ کر اس پر صبر واستقامت کا عہد تھا۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے انبیاء و مرسلین ؑ مبعوث کیے گئے۔ ترجمہ’’ ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذن ِخداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے( النساء۔۶۴) لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی اجتماعی سطح پر اطاعت کا جذبہ بہت کم ہوتا گیا اور اس کی روحانی رنگت و ہیٔت ماند پڑ گئی۔ اب اس کا اجتماعی سطح پر ایک خالص کھوکھلا جذباتی پہلو نظر آتا ہے۔ عملاً ہم میں اتباعِ رسول ؐ کے حوالے سے بہت ہی بے اعتنائی اور بے وفائی برتی جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا رسول ؐصرف اسی زبانی محبت اور ظاہر داری کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یقینا صرف یہ چیز ہی ایمان بالرسالت ؐکے لیے کافی نہیں ہے اور نہ ہی رسول ؐکی بعثت اس محدود تصور کی غرض سے ہوتی ہے۔ لہٰذا اطاعت و اتباع رسولؐ کے بغیردعوائے ایمان و محبت نامکمل اور ناکافی ہے جب کہ یہ پہلا تقاضا ئے دین ہے۔ اسی لیے ربِ تعالیٰ نے اتباع و اطاعت دونوں کا حکم دیا ۔ ترجمہ : اے نبی !لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کر ے گا‘‘۔ اور یہ : ’’ان سے کہو کہ اللہ اور رسول ؐکی اطاعت کرو، پھر اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اُس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔( آل عمران۳۱۔۳۲)۔ اتباع و اطاعت ِ رسول ؐکا پھر لازمی تقاضا ہے کہ رسولؐ جو قانون و لائحہ عمل لائے اسے اپنی زندگی کے جملہ شعبہ جات میں عملایا جائے اور رسولؐ کو ہر معاملے میں واحد حَکَم ( فیصلہ و فتویٰ دینے والا) کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔ رسول ؐکی اتباع کو محض مشروبات و ماکولات اور ملبوسات میں مقیدنہ کیا جائے۔ ترجمہ :’’ قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ( جو صر ف زبانی ایمان ظاہر کرتے پھرتے ہے عند اللہ)ایمان دار نہیں ہوں گے، جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے ان آپس کے اختلاف میں تجھی کو حکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلے تو ان میں کر دے ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ‘‘
پھر کیا وجہ ہے کہ امت ِ رسول ؐدعوائے حبِ رسولؐ تو کرے، اس کا اظہار جشن وجلوس صورت میں بھی کرتی پھرے ، لیکن یہ دعویٰ صرف جلسہ گا ہوں ، مساجد اور خانقاہوں تک محدودر ہے، مسجد کے اندرتو رسول ؐکو امام و مقتدیٰ تسلیم کر ے لیکن مسجد سے باہر معاملاتِ زندگی میں تسلیم ہی نہیں نہ کرے۔ مسجد کے باہر کفر و ضلالت، رسم و رواج اور سرکش و طاغوت کی سرداری اور حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ کاہے کا حُب ِ رسول ؐ ہو ا؟؟؟اُمت ِمسلمہ کی زبوں حالی اور بد حالی کی اصل وجہ صاف ہے کہ اللہ اور اس کے آخری رسول ؐکو چھوڑ کے کفر کی اطاعت اختیار کی گئی ہے جس کا پھر لازمی نتیجہ ذلت و رسوائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صراحتاً فرما یا ہے : ترجمہ:’’ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اگر تم ان لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹا دیں گے( یعنی اس جہالت اور کفر کی طرف جس سے تم نکل کر آئے ہو) پھر تم پڑجائو گے نقصان میں ‘‘ ( یہ نہیں کہ اطاعت کفر کے بعد تمہارا ایمان سلامت رہے گا ،اس زعم میں نہ رہنا ‘‘( آل عمران ۱۴۹)۔نیز یہ کہ (۱) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (۲) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریںوہی ظالم ہیں(۳) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کردیں وہی فاسق ہیں۔( بالترتیب سورہ المائدہ ۴۴،۴۵، ۴۷) ان آیات سے حق بات کے حوالے سے ہماری ذمہ داری اور بھی واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ پھر اگر کوئی ہم سے سوال کرے جناب کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ محمدؐ کو اپنا رہبر و رہنما صرف جلسوں ،ا جتماعات، مساجد اور خانقاہوں میں مانتے ہیںمگر مسجد اور خانقاہ سے باہر آپ ؐ کو تسلیم ہی نہیں کرتے ؟آپ لوگ بزبان قال سے نہ سہی بزبانِ حال اور اپنے افعال وترجیحات سے جواب ہی نہیں دیتے ہو بلکہ ثابت کر دیتے ہو کہ ہم آپؐ کو زندگی کے دیگر شعبوں میں مثلاًتجارت، معیشت، تہذیب، تمدن، ثقافت، سیاست ، عدالت میں نہیں مانتے ہیں بلکہ دوسروں کے قانون ، نظام اور طریق کار اور فیشن کو اختیار کر تے ہیں، اگر چہ ہمارے یہ خود ساختہ مطاع خدا ورسول ؐکے ماننے والے ہی نہ ہوں ، لادین اور دہریہ ہی ہوں، اور ہم اپنی مرضی سے اپنے طریق زندگی کے لئے غیراللہ یا طاغوت کے تلوے چاٹنے کے آزاد ہیں۔ اسی لیے تو ہم دعویٰ ٔا سلام کے باوجوداشتراکی ، جمہوری اور لادین تعلیمی نظام کو رائج کرنے کے لیے اَن تھک کوششیں بھی کرتے ہیں۔ہم اس لیے طاغوت اور کفر کے نظام و دستور کو مانتے ہیں اور دوسروں کو بھی ماننے کی دعوت دیتے ہیں۔ غرض ہم اپنے افعال ، اقوال ، احوال اور اعمال سے اس بات کا خواہی نہ خواہی ثبوت دے ہی دیتے ہیں کہ محمدؐ ایک مسجد کے امام کی حیثیت سے تو کامیاب ہیں لیکن ایک مملکت کے امام کی حیثیت سے آپ کا اُسوۂ حسنہ نعوذباللہ ہمیں قبول نہیں۔ ہم اپنی دنیا بنانے کے لئے بے ضمیروں ،بے ایمانوں ، بد عملوں ، بے غیرتوں ، گناہ گاروں،غلط کاروں، قوم فروشوں ، اخلاق باختوںکے پیچھے کیوں نہ چلیں ، ہم سود کیوں نہ کھائیں ، پھربھی ہم امتی ٔ رسول ؐ ٹھہرتے ہیں ۔ اسی لیے ہم غیروں کی سیاست اور طریقے بھی بلا تکلف اختیار کر تے جاتے ہیں۔ اگر فی الواقعہ ہمارا معاملہ یہی ہے تو پھر ہمارادعوائے ایمان بالرسالت ناقص ہے۔ ہم اگراپنے دعوائے ایمان میں سچے ہوتے تو لازماً آپؐ کے لائے ہوئے نظام و طریقِ حیات کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بخوشی عملاتے۔ بالفرض خدا کے باغیوں نے دینی نظام کو اگر ہمارے لیے عملانے میں مشکل بنایا ہوتو اس مشکل،دشواری اور رکاوٹ کو ہٹانے اور راستہ ہموار کرنے کی سعی و جہد کرنے سے ہم رُک گئے ہیں ؟ ۔ ہم جب نگاہ ِ بصیرت سے دیکھیں گے تو عملًا اس کے برعکس دیکھنے کو ملے گایعنی ہم جدیدیت اور اعتدال نوازی کے نام پر کفر کے نظام کو نافذ کرنے کی سعیمیں اپنے شانے پیش کر تے ہیں ۔ یوں انفرادی سطح پر نہ سہی اجتماعاً امت کا سوادِ اعظم اسلام عملی طورانحراف کیے ہوئے ہے۔ لہٰذا ہم اسی بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ رسولِ رحمت کو اپنی زندگیوں سے بے دخل کر نا خاکم بدہن کوئی گناہ نہیں ،اگرچہ دعویٰ ایمان اور محبت نبی ؐمیں ہم اہل کتاب سے بھی دس قدم آگے ہیں۔ جس انگلی سے ہم ہر نماز میں نبی محترم ؐکی رسالت کی شہادت دیتے ہیں ، اُسی انگشتِ شہادت سے پھر نماز سے باہر کفر اور طاغوت کی غلامی کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔قرآن نے ہم ہی جیسے لوگوں کے دعوائے ایمان بالرسالت کی سورۃ النساء میں نفی کی ہے کیونکہ عملی زندگی میں رسولؐ کو جب معیارِ حق اور حَکم تسلیم نہ کیا جائے توسارا دین مشتبہ اور زندگی کا جہاز بے لنگر ہوجاتا ہے۔ غرض تب تک دعوائے ایمان اور حبِ ِنبی ؐاللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے جب تک رسولؐ کی مکمل اور غیر مشروط اتباع و اطاعت تمام شعبہ ہائے زندگی میںاختیار نہ کی جائے۔کیا یہ رسولؐ کی نعوذباللہ گستاخی نہیں ہے کہ دعویٰ تو محبت اور عقیدت کا کیا جائے لیکن افسوس جب ایمانیات، عبادات، معاملات ،تجارت، سیاست، ثقافت، تہذیب، تمدن، قانون اور انصاف کی بات آئے تو رسولؐ کے احکا مات اور ہدایات کو نظر انداز کیا جائے اور ایسے معاملات میں کھلے عام طاغوت کی طرف رجوع کیاجائے۔ بہرحال گلہ تو غیروں کا نہیں کہ وہ آپؐ کی ہدایات اور فرمودات سے غافل ہیں ، ان سے یہی توقع کی جاسکتی ہے مگر افسوس تو ہم اپنوں پر ہے جو مانتے اور جانتے بھی ہیں پھر بھی عملی میدان میںرسول ؐ کو نظر انداز کرتے ہیں ؎
اگر اس سے کچھ بھی عقیدت ہے تم کو ، تو اپنا وطیرہ بدلنا پڑے گا
نفاق زبان و عمل سے گزر کر صداقت کے سانچے میں ڈھلنا پڑے گا
خبر دے رہا ہے محمدؐ کا اسوہ کہ آسان نہیں ہے مسلمان ہونا
بہت امتحانات در پیش ہوں گے، بہت سخت راہوں پہ چلنا پڑے گا
ہمیں یہ محکم اصول ِدین جاننا چاہیے کہ قرآن نے اللہ کے اقرار و انکار کا معیار اتباع واطاعت رسول ؐ قرار دیا ہے۔ اس باب میں بھی ہم نے ایسی چیزوں کی اختراع کرلی ہے جن کی رسالت مآبؐ نے اجازت ہی نہیں دی ہے۔قرآن پاک میں جن ایمانی اعمال کا ذکر آیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسولؐ کی عزت( بمعنی اتباع ) نہ کی جائے یعنی آپ ؐکے مقام و مرتبہ کا خیال نہ رکھا جائے۔حقیقی محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہی ہیں جنہوں نے اتباع و اطاعت رسولؐ کو ہر ہر شعبہ ٔ حیات اپنے اوپر لازم کر لیا ، وہی کامیاب وکامران ہیں اور یاد رکھئے ؎
یہ ذوقِ اطاعت سے خالی عقیدت ، عقیدت نہیں صرف بازی گری ہے
جو ایثار و اقدام سے جی چرائے ،محبت نہیں صرف بازی گری ہے
…………………
فون نمبر9858192958
ہامرے بارہمولہ