آج کل کے مادی دور میں انسان کی خواہشات بڑھتی چلی جا رہی ہے جسکی وجہ سے اکثر لوگ اپنی زندگی کے ساتھ مطمئن نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی ضرورتوں کی حد ممکن ہے لیکن اُسکی خواہشوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ انسان جتنی اپنی خواہشات پوری کرتا ہے اتنی ہی اُسکی لالچ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ لہٰذا جو انسان اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں کے ساتھ مطمئن ہونے کے بجائے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے، وہ انسان کبھی بھی اپنی زندگی میں مطمئن نہیں رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اپنی زندگی سے ناخوش ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کی چاہ میں رہنا انسان کی ایک بنیادی خصلت ہے۔ اگر ہمارے پاس ضرورت کے مطابق ایک گاڑی ہوتی ہے تو ہماری یہ خصلت ہمیں اُس سے بھی اچھی گاڑی خریدنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر ہمارے پاس رہنے کے لیے ایک عام سا مکان ہے تو ہم چاہتےہیں کہ ہمیں رہنے کے لئےاس سے بھی بہتر اور خوبصورت مکان ہو۔ ایسے ہی یہ سلسلہ لگاتار چلتا رہتا ہے۔ نہ ہی ہماری خواہشات مکمل ہوتی نظر آرہی ہیں اور نہ ہمیں اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اپنی میسر سہولیات اور آسائشوں پر اکتفا کرنے کے بجائے ہم زیادہ سے زیادہ کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کے پاس سب کچھ ہے جو وہ چاہتے ہیں لیکن پھر بھی و خوش نہیں رہتے ہیں کیونکہ انسانی خواہشات کی دوڑ ایک ایسی دوڑ ہے، جس میں انسان کبھی جیت نہیں سکتا۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کی یہ بُری عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آرام و آرائشوں کا موازنہ اُن لوگوں سے کرتےہیں، جن کا درجہ سماج میں اُن سے اونچا ہوتا ہے اور وہ چاہتےہیں کہ اُن کی زندگی اُن اونچے درجے کے لوگوں جیسی حسین اور آرام دہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے وہ اپنی زندگیوں میں اکثر مایوس اور ناخوش رہتےہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ قناعت پسندی زندگی میں خوشی کے لیے بہت ہی اہم ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ قناعت پسندی کا مطلب کیا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو قناعت پسندی کا مطلب ہے کہ رب کی تقسیم پر راضی ہونا یا دوسرے الفاظ میں قناعت پسندی کا مطلب ہے کہ انسان جس حال میں ہو، جہاں بھی ہو یا جو بھی اُس کے پاس ہو، وہ اسی میں خوش ہو۔ قناعت پسند انسان اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں پر اکتفا کرکے اپنی زندگی خوش اسلوبی کے ساتھ گزرتا ہے اور کبھی بھی زندگی سے مایوس نہیں ہوتا ہے۔ قناعت پسندی کا مطلب یہ نہیں کی انسان اپنی خواہشات کو اپنے سینے میں دفن کرے بلکہ اسکا مطلب اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنا ہے۔ قناعت سے انسان کی زندگی میں فرحت پیدا ہوتی ہے اور دماغ کو سکون فراہم ہوتا ہے جو انسان کی زندگی میں بہتری کا باعث بنتا ہے۔ قناعت کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان اپنے خوشحال اور پرسکون مستقبل کی آرزو نہ کرے بلکہ اس کا مطلب اپنی موجودہ زندگی کے حالات کو قبول کر کے ایک بہترین مستقبل کی کوشش کرتا رہے کیونکہ جب تک ایک انسان کی موجودہ زندگی پرسکون نہ ہو تب تک وہ ایک خوشحال مستقبل کی کوشش نہیں کر سکتا ہے اور انسان کی موجودہ زندگی تب ہی پرسکون ہوسکتی ہے، جب وہ قناعت پسند ہو۔
ایک مایوس کن زندگی میں خوشی کا واحد ذریعہ قناعت پسندی ہے۔ جب ایک انسان اپنی زندگی سے مطمئن ہوتا ہے تو وہ اُن چیزوں کی تمنّا کرنا چھوڑ دیتا ہے جو اُسکی دسترس میں نہیں ہوتی ہے اور شکایت کرنے کے بجائے وہ اُن ہی چیزوں میں اپنی خوشی حاصل کرتا ہے جو اُسے مہیا ہوتی ہے۔ قناعت پسندی انسان کو ضروریات اور خواہشات میں فرق کرنا سکھاتی ہے اور انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ انسان کی حقیقی خوشی مادیت میں نہیں بلکہ پرسکون اور مطمئن زندگی میں ہے۔ ایک قناعت پسند انسان اپنی ضروریات زندگی کے علاوہ کسی اور چیز کی خواہش نہیں رکھتا ہے۔ جب ایک انسان ميں زندگی کی ضروریات اور خواہشات کے بيچ فرق كرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تو وہ حد سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہیں ڈالتا ہے جسکی وجہ سے وہ ذہنی تناؤ سے دور رہتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں ہر اعتبار سے سادگی اختيار کرتا ہے اور سادہ زندگی میں ہی سکون حاصل کرتا ہے. وہ اپنی ملکیت اور مال و دولت میں اضافہ کرنے کے بجائے وہ اپنے ذہنی سکون پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔
زندگی میں قناعت اختیار كرنے کیلئے انسان کا شکرگزار ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ انسان کو ہمیشہ ذہن میں یہ خیال ركھنا چاہیے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور یہاں کوئی بھی چيز دائمی نہیں ہے۔ لہٰذا ہر چیز کی خواہش کرنا فضول ہے۔ انسان کی اصل خوشی مادی چيزوں میں نہیں بلکہ قلبی سکون میں ہے جو صرف اللہ کی شکرگزاری سے حاصل ہوسکتا ہے۔ زندگی ایک مقابلے کی دوڑ نہیں بلکہ ذہنی سکون اور خود کفالت کو برقرار رکھنے کا نام ہے۔ انسان اپنے موجودہ حال کے ساتھ جتنا مطمئن ہوگا اسکی زندگی اتنی ہی پرسکون اور خوشحال ہوگی۔ زندگی میں قناعت اختیار کرنے کیلئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کا موازنہ ہمیشہ ان لوگوں سے کرے جو سماج ميں اس کے نیچے کے درجے کے ہو اور پھر اپنی زندگی میں میسر نعمتوںکو یاد کرکے اللہ کی شکر گزاری کرے ۔ انسان کو چاہئے کی وہ اپنی زندگی میں ہر چیز کی خرید و فروخت اپنے شوخ کے لیے نہیں بلکہ اپنی ضرورت کے حساب سے کرے۔ اصل میں دنیا کا سب سے امیر شخص وہ نہیں ہے ،جس کے پاس سب سے زیادہ دولت ہو بلکہ سب سے امیر شخص وہ ہے جس کو اپنی زندگی میں غیر ضروری چیزوں کی خواہش نہ ہواور اپنی میسر دولت کے ساتھ ہی مطمئن ہو اور اپنی موجودہ زندگی کے حالات میں ہی خوش ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک انسان اپنے تمام اخراجات میں نہایت ہی کمی کرنے والا ہو۔ ہماری زندگی کی بہتری اور خوشی کا دارمدار ہمارے انتخاب پر ہے ،لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم ہر روز قناعت اور اطمینان کا انتخاب کریں۔
(مضمون نگار ڈگری کالج کولگام میں بحیثیت لیکچرر کام کر رہےہیں)
رابطہ۔ :7006569430
ای میل: [email protected]