شیخ عابد اشرف
زبانوں کی فہرست میں اُردو آج بھی دنیا کی چوتھی سب سے بڑی زبان ہے ،جسے لوگ تحریری و زبانی طور استعمال میں لاتے ہیں، اتنا ہی نہیں اردو نے شروعات سے ہی اجنبی خطوں کو آپس میں جوڑنے کا کام کیا ہے اور اگر دیکھا جائے تو اسی عمل کی وجہ سے وجود میں بھی آئی ہے۔ اسی خصوصیت نے اردو زبان کو مقبولیت بخشی۔ اگرچہ اردو زبان کی پیدائش کے حوالے سے مختلف نظریتا ہے البتہ اردو مختلف زبانوں سے مل کر بنی ہے، اس بات سے کسی کو اعتراض نہیں ہے کہ اردو خود ترقی زبان کا لفظ ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اردو نے کئی زبانوں سے لفظیات کو مستعار لے کر اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ اردو زبان کے لفظیات کا ذخیرہ باقی زبانوں سے لیا گیا ہے، اردو زبان کے پاس اتنا ذخیرہ الفاظ موجود ہیں کہ اب یہ کسی دوسری زبان کے لفظیات کی محتاج نہیں ہے۔ اردو نے ابتدا سے اب تک کئی منازل طے کر کے دنیا کی نامی گرامی زبانوں کی فہرست میں اپنا مقام حاصل کر لیا ہے، اردو کو اس مقام پر اردو زبان کے ابتدائی قلم کاروں نے پہنچایا ہے، البتہ دور حاضر میں کسی دوسری زبان کا ذخیرہ الفاظ اردو میں استعمال کرنا اردو زبان کا خون کرنے کے مترادف ہے، خاص طور پر ایک ایسی زبان کے لفظیات کا استعمال جس کا غلبہ پوری دنیا پر ہو،سرسید احمد خان کے اس طریقے کو کافی سہرایا جاتا ہے جو اپنی تحریرات میں انگریزی لفظیات کا خاصا استعمال کرتے تھے جو کہ نفیس عمل ہے، کیوں کہ اس وقت تک اردو اپنی ابتدائی منازل کر رہی تھی۔ سرسید کے علاوہ بھی کئی قلم کار گزرے ہیں جو اس طرح کی عادت رکھتے تھے۔ سرسید اور دیگر اہل اردو کے اس عمل سے اردو زبان میں وسعت آگئ، لیکن آج کے دور میں اردو زبان لفظیات کی محتاج نہیں ہے، لہٰذا آج کے دور میں سرسید احمد خان کی راہ نقش پر چلنا غلط اور غیر ضروری عمل ہے۔ انگریزی زبان دنیا کی تمام زبانوں میں سب سے اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ انگریزی کے الفاظ کا اردو میں استعمال کرنے سے اردو کے ذخیرہ الفاظ میں کشادگی نہیں بلکہ انگریزی زبان کا پرچار ہو رہا ہے اور اردو زبان انگریزی زبان کے سائے میں رہ کر اپنی شاخیں پھیلانے سے قاصر ہے۔ اگر اردو زبان میں لفظ ’’ زندگی ‘‘ موجود ہے تو پھر انگریزی لفظ’’ لائف ‘‘ استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے، اسی طرح اگر اردو میں institute کے لئے لفظ “ادارہ “موجود ہے تو پھر انسٹچوٹ لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم یہاں اصل لفظ کو ٹھکرا کے کسی دوسری زبان کا پرچار کر رہے ہیں، ان تمام حرکتوں سے اردو زبان زوال کا شکار ہو رہی ہے اور انگریزی زبان اسے کچل رہی ہے ،یہ سب عصر حاضر کے قلم قاروں کی غلطی اور نافہمی ہے جو اردو کے اصل الفاظ کو سیکھنے یا جاننے کے بجائے انگریزی زبان کے الفاظ کا استعمال اپنی تحریرات میں کرتے ہیں۔ ان تحریرات کو پڑھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ قاری اردو زبان کے بجائے انگریزی زبان میں تحریر کو پڑھ رہا ہے اور یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ قلم کار کا اردو کے بجائے انگریزی زبان پر دسترس ہے ۔ہمارے بچوں کی درسی کتابوں میں بھی آج کل کچھ ایسے الفاظ شامل ہو رہے ہیں جو بنیادی طور پر انگریزی کے الفاظ ہیں جن کا اردو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے، اس غیر ضروری عمل سے بھی اردو زبان زوال کا شکاری ہو رہی ہے اور باقی زبانیں اردو رسم الخط میں اپنی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں ۔ہماری موجودہ نسل اردو لکھنے اور پڑھنے سے قاصر ہیں ،اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہیں کہ قلم کار اردو کی اصل ذخیرہ الفاظ سے بے خبر ہیں ،اس کے علاوہ وہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں، جن کے ہاتھوں میں اردو زبان کی باگ دوڑ ہے۔کیوں کہ انہوں نے اردو زبان کے ڈھانچے کو بالکل خراب کر دیا ہے ۔ہمارے درسی کتابوں میں اتنی غلطیاں ہیں جسے اردو زبان کا زوال پزیر ہونا سو فیصد طے ہے۔ مثال کے طور پر جس طرح انگریزی سیکھنے کے لئے گرامر کو لازمی طور پر پڑھایا جاتا ہے، اسی طرح اردو زبان کا گرامر بھی پڑھانا لازمی ہونا چاہئے کیوں کہ اردو ادب سے وابستہ افراد اردو گرامر سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اردو کا طالب علم اردو زبان میں کوئی تحریر لکھ سکیں ،اسی طرح اردو کی درسی کتابوں میں مضامین میں تبدیلی کی بھی اشد ضرورت ہے کیوں کہ آٹھویں جماعت میں جس مرزا غالب ،میر تقی میر ،اقبال وغیرہ کو پڑھایا جاتا ہے، وہی مضامین اوپر کے درجات میں بھی پڑھائے جاتے ہیں جسے محسوس ہوتا ہے کہ اردو زبان ان ہی لوگوں کے آس پاس کھڑی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اردو کے شاہ سوار ہیں، ان کی مرہون منت سے اردو اس مقام تک پہنچی ہے لیکن کیا اردو میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ جس طرح اتہاس والوں نے اتہاس کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے، اسی طرح اردو کو بھی تقسم کرتے۔ مثال کے طور پر اگر اردو کو گیارویں صدی سے چودویں صدی تک کا ایک دور ،پھر پندرویں صدی سے انیسویں صدی تک کا دوسرا دور اور اسی طرح پھر بیسویں صدی سے تا حال کے دور میں تقسیم کرتے ،جسے کئی فائدے ہوتے۔ پہلا فائدہ یہ کہ کالج کے تین سال کے نصاب میں اردو کے تین ادوار شامل کرتے ،پھر ایم اے کے دوران بھی ان ادوار کو تقسیم کرتے ہوئے پڑھاتے اور جب کوئی پی ایچ ڈی کرنا چاہے، وہ ان تین ادوار میں کسی ایک دور کو پسند کرتا جسے ہمیں یہ بھی فائدہ ہوتا کہ ہماری نظر پورے اردو ادب پر جاتی اور یہ اندازہ ہوتا کہ اردو ادب کتنا وسیع ادب ہے۔ اس کے علاوہ دور حاضر کے قلم کاروں کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے، عصر حاضر میں کئی قلم کار ایسے ہیں جو کافی بلند خیال اور اردو زبان پر گرفت رکھتے ہیں لیکن ان کی تحریرات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اس سوچ کے ساتھ کہ دور حاضر میں غالب ،مومن،میر،ولی دکنی ،پریم چندجیسے قلم کار پیدا نہیں ہوسکتے جو کہ غلط فہمی اور ناقص سوچ ہے ۔میرے نزدیک دور حاضر میں پورے عالم میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو غالب ،پریم چند،منٹو،قرۃالعین حیدر جیسی شخصیات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے، لہٰذا اردو زبان کو اگر زندہ رکھنا ہے تو بنیادی ڈھانچے کو بدلنے کی ضرورت ہے اور عصر حاضر کے قلم کاروں کے خیالات کو سرہانے کی ضرورت ہے ورنہ جس طرح اردو زبان پہلے کے اہل اردو نے ہم تک پہنچایا تھا ،وہ مقام اور ساخت اردو زبان بہت جلد کھوتی نظر آئے گی۔
ترہگام 7889959161
[email protected]