عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/جموں و کشمیر حکومت نے کہا کہ سکمز صورہ میں عملے کی کمی ایک چیلنج ہے کیونکہ OPD اور IPD میں مریضوں کا دباؤ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
ایم ایل اے تنویر صادق کے سوال کے جواب میں، محکمہ صحت و طبی تعلیم کی وزیر سکینہ ایتو نےکہا کہ او پی ڈی اور آئی ڈی پی میں مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، تاہم عملے کی قلت ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہااس حوالے سے یہ مسئلہ متعلقہ بھرتی ایجنسیوں کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔ مزید برآں، محکمہ صحت و طبی تعلیم نے حال ہی میں سکمز سے متعلق 2025 کے بھرتی قوانین کو نوٹیفائی کیا ہے، جو SO-29مورخہ 23.01.2025 کے تحت جاری کیے گئے ہیں، اور اس سے مختلف کیٹیگریز میں عملے کی ترقی کی راہ ہموار ہوگی، جس کے نتیجے میں مزید آسامیاں پیدا ہوں گی۔
ایس ایم ایچ ایس سے متعلق بات کرتے ہوئے، سکینہ ایتو نے کہا کہ گورنمنٹ ایس ایم ایچ ایس اسپتال روزانہ 3500 مریضوں کو ہنگامی، OPD اور IPD میں دیکھتا ہے اور یہ درست نہیں کہ سری نگر کے سرکاری اسپتالوں میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا، انتظامیہ کی اولین ترجیح صحت کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ مریضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے، مختلف منصوبے جیسے کہ تھیٹر بلاک کی تعمیرجس کی لاگت 5024.74 لاکھ روپے ہے، 30 بستروں پر مشتمل ENT بلاک جس کا تخمینہ 499.00 لاکھ روپے ہے، زیر تعمیر ہیں۔ اس کے علاوہ، میڈیکل ایمرجنسی کی اپ گریڈیشن کے لیے 299.85 لاکھ روپے کا منصوبہ بھی جاری ہے، اور ٹٹرائیج اپ گریڈیشن اور لفٹس کی توسیع کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا،یہ منصوبے مزید سہولیات فراہم کریں گے، جیسے کہ HD وارڈ (18 بیڈز)، پری-اور-پوسٹ آپریٹو وارڈز (37)، ڈرگ / CSSD اسٹورز (2)، بلڈ بینک، گیس بینک، جو کہ مذکورہ اسپتال میں صحت کی سہولیات کو مزید بہتر بنائیں گے۔
جواہر لعل نہرو میموریل اسپتال رینہ واری کے حوالے سے سکینہ ایتو نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ اسپتال میں مریضوں کی آمد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کے لیے محکمہ صحت و طبی تعلیم کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جا رہا ہے، اور ایک G+4 اضافی بلاک زیر تعمیر ہے، جو جلد مکمل کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا، کہ حال ہی میں سی ٹی اسکین نصب کیا گیا ہے۔ جہاں تک افرادی قوت کا تعلق ہے، تقریباً تمام منظور شدہ عہدوں پر کنسلٹنٹس اور میڈیکل آفیسرز تعینات ہیں، البتہ پیرا میڈیکس کی کچھ آسامیاں خالی ہیں، لیکن اس کمی کو این ایچ ایم کے تحت فراہم کردہ عملے سے پورا کیا جا رہا ہے۔