نہ ہمسایہ نہ کوئی گھر رہا ہے
شجر سے ایک پتہ گر رہا ہے
وہ دنیا کے لیے بہتر رہا ہے
جو مالک خود کبھی نوکر رہا ہے
کھنڈر وہ بھی بہت سندر رہا ہے
جو بارش میں کسی کا گھر رہا ہے
ستم یہ زلزلہ کیا کر رہا ہے
شفا خانہ ہی پہلے گر رہا ہے
کہ بیوہ ماں کو سکھ دینے کی خاطر
وہ بچپن سے ہی محنت کر رہا ہے
ٹھہرتا ہے گلے پر ہاتھ اب بھی
بہت دن تک یہاں زیور رہا ہے
کئی دن تک نہیں نکلا ہے گھر سے
جو دو دن کے لئے باہر رہا ہے
اسی مجمع کے اندر میں کھڑی ہوں
وہ جس جانب اشارہ کر رہا ہے
میرے دشمن کا چہرہ دیکھتے ہی
میرے ہاتھوں سے خنجر گر رہا ہے
فقط سادہ تھی جس لڑکے کی صورت
وہی ماں کے لئے سندر رہا ہے
ارون شرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
گویا گلشن میں اک گلاب ہوں میں
سب کی آنکھوں کا انتخاب ہوں میں
صبح دم ، مثلِ آفتاب ہوں میں
شام آئی تو ماہتاب ہوں میں
چشمِ آدم میں ،جب کہ خواب ہوں میں
جگ مگر کیوں کہے خراب ہوں میں
کیسے کہہ دوں کہ لاجواب ہوں میں
ہاں مگر ، تیرا انتخاب ہوں میں
تال ہوں، سُر ہوں، اور سوز بھی ہوں
راگ ہوں، ساز ہوں، رباب ہوں میں
رُت کوئی بھی ہو،راحتِ افزا ہوں
سبزو شاداب، دست یاب ہوں میں
بیٹیاں جب ہیں باعثِ رحمت
جگ میں کیوں باعثِ عذاب ہوں میں
جس کو سمجھا تھا اک صحیفہ جبیںؔ
طاق پر اک رکھی کتاب ہوں میں
جبیں نازاں
لکشمنی نگر، نئی دہلی
بنا شخص اب وہ ستمگر کی صورت
ہے لگتا مجھے درد پیکر کی صورت
وہ دن رات کی روشنی لے گیا ہے
رہے ہم ہمیشہ سیاہ گھرکی صورت
کہاں تک سنبھالیں گے ہم چاکِ داماں
کوئی بھی نہ آیا رفوگر کی صورت
نہ دنیا میں رہنا، نہ دنیا کا ہونا
رہیں گے اب ایسے قلندر کی صورت
تِری یاد آئی، تو آنکھیں ہوئیں تر
ملے غم کے سائے سمندر کی صورت
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا، بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛6006242157
جبھی اُن کو دیکھا، یہی بات کی
اُمیدیں بہت تھیں ملاقات کی
سرِ معرکہ دل ہوا جاں نصیب
جو بازی تھی جیتی، وہی مات کی
گیا اک زمانہ اسی سوچ میں
ہو قسمت میں ظلِّ ہما ساتھ کی
تھی صدیوں کی دوری مقدر مری
اِدھر دن گزارے، اُدھر رات کی
گیا تھا زمانے سے لڑنے، مگر
چلی بادِ وقتِ مکافات کی
جہاں دن گنوائے جوانی کے ہیں
اُٹھی لہر ہے، اب مکافات کی
ہوئے موسمِ گُل سبھی داغ دار
گراں پڑ گئی ساعتِ ذات کی
یہ بے قدر لوگوں کی پہچان ہے
خموشی مٹاتی ہے جذبات کی
اُٹھا رُو بدل کر چلا بزم سے
نہ یاورؔ کو دیکھا، نہ کچھ بات کی
یاور حبیب ڈار
بڈکوٗٹ ہندوارہ کپواڑہ ، کشمیر
[email protected]
بِن ترے ہم سے تو رہا نہ گیا
جیتے جی ہم سے تو جیا نہ گیا
پی گئے ہم جہاں کے غم جا ناں!
اِک ترا غم مگر پیا نہ گیا
دل میں تم دھڑکنوں میں تم ہی ہو
سامنے تیرے یہ کہا نہ گیا
ہم ہی ہیں بے وفا زمانے میں
اِن لبوں سے یہی گلہ نہ گیا
مل گئے جو رقیب کے وہ سنگ
پھر کسی سے ہمیں ملا نہ گیا
منزلِ _ راہ بھی کھٹن تھی بہت
پر معینؔ اپنا حوصلہ نہ گیا
معین فخر معین
دوڑے ہیں لوگ شور پہ بازار کے قریب
بیٹھا نہ کوئی اللہ کے دربار کے قریب
خالی ہے مسجدیں تو عبادت نہیں کہیں
ملتی مگر تو بھیڑ ہے دیوار کے قریب
بیٹھے تو پاس سب ہیں موبائیل لئے ہوئے
پر جھانکتا نہیں کوئی بیمار کے قریب
دنیا کے پیچھے دوڑتے ہیں قافلے کہیں
انساں چلا ہے آگ کے انبَار کے قریب
آپس میں دوسروں کو مسلماں ہیں نوچتے
پھر گڑگڑایا دشمنِ اغیار کے قریب
چُھٹی ہے آنے والی گزاروں کہاں پہ اب
سہہ سہہ کے آگیا ہوں میں اتوار کے قریب
شاداں ؔتو ہوں میں خود سے اگرچہ کم و ستم
نا ٹھیس دے مرے کوئی معیار کے قریب
شاداں رفیق
اوڑی، بارہمولہ، کشمیر
[email protected]
تیرے میرے تعلقات کا دُکھ
رہ گیا ان مکالمات کا دُکھ
موت کا دُکھ تو ایک پل کا ہے
عمر بھر ہے مگر حیات کا دُکھ
چھوڑ کر جب سے وہ گیا ہے مجھے
جھیلتا ہوں میں حادثات کا دُکھ
کیسے سوتا ہے وہ شجر جس کو
ہو پرندوں کے حادثات کا دُکھ
چاند کو دیکھ کر یہ سوچتا ہوں
اُس کو بھی تو نہیں ہے رات کا دُکھ؟
وہ بدن ہے مثالِ شہرِ زوال
جس پہ چھایا ہے چاند رات کا دکھ
عشق بھی ہار مانتا ہے میرؔ
جب مقابل ہو ذات پات کا دکھ
میرؔ مزمل
اندر کوٹ سمبل کشمیر
[email protected]