مارچ 2025 کی ڈیڈ لائن بھی ختم، تاخیر سے عوام کے مشکلات میں اضافہ
بلال فرقانی
سرینگر// 990 کروڑ روپے کے بجٹ کے ساتھ شروع کیے گئے سرینگر اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کو حکومت نے شہر کی شکل بدلنے والا منصوبہ قرار دیا تھا، لیکن عملی سطح پر اس میں اب بھی کئی خامیاں اور تاخیر نمایاں ہیں۔ اگرچہ حکام کے مطابق 131 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، مگر مارچ2025کی تازہ ڈیڈلائن کے باوجود جون 2025 تک کم از کم 10 بڑے منصوبے اب بھی زیر تعمیر ہیں، جن کے باعث نہ صرف ترقیاتی عمل سست پڑا ہے بلکہ شہریوں کو روزمرہ کی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ حکومت نے پہلے ہی مارچ 2025 کو نئے ہدف (ڈیڈ لائن) کے طور پر مقرر کر رکھا ہے، جس کا مطلب ہے کہ سابق ڈیڈ لائنوںپر منصوبے مکمل نہ ہو سکے۔ ان پروجیکٹوں میں بٹہ مالوبازار میں روایتی سوق مارکیٹ اور کرافٹ سینٹر کی تعمیر، گونی کھن پلازہ ،مہاراجہ بازار اسٹریٹ اور گونی کھن مارکیٹ میں اپگریڈیشن اور الیکٹرک کیبلنگ، امیرا کدل پیدل پل، کورٹ روڈ نکاسی آب اسٹیشن کی تجدید، نشاط واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ اور آٹومیشن نظام کی تنصیب،،آبی ٹرانسپورٹ سروس، شالیمار نہر کے ساتھ کیفے، ویوئنگ ٹاور، انٹرپریٹیشن سینٹر اور سہولتی بلاکس کی تعمیر، سن سیٹ پلازہ پارکنگ اور جہلم واٹر فرنٹ،مرحلہ دوم شامل ہیں۔ ان منصوبوں کی تاخیر نہ صرف شہریوں کیلئے روزمرہ مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہیں بلکہ پروجیکٹ کی شفافیت اور انتظامی صلاحیت پر بھی سوال اٹھا رہی ہے۔جہلم اور ڈل جھیل میں واٹر ٹرانسپورٹ سروس فی الحال ٹینڈرنگ مرحلے میں ہے ۔یہ تمام منصوبے شہر کی بنیادی سہولیات، سیاحت، ماحولیاتی بہتری اور جدید شہری ڈھانچے سے براہ راست متعلق ہیں لیکن اب تک ان میں سے کوئی بھی منصوبہ مکمل حالت میں نظر نہیں آ رہا۔ کئی جگہوں پر تعمیری سرگرمیاں مسلسل رکی ہوئی ہیں یا سست رفتاری کا شکار ہیں۔پائین شہر سے تعلق رکھنے والے شہری بشیر احمد نے بتایا کہ ان منصوبوں کی تاخیر کے اثرات شہری زندگی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ سڑکوں پر جاری کھدائیاں، ادھوری پکی گلیاں، بے ترتیبی سے رکھے گئے سامان اور بڑھتا ہوا گرد و غبار عوام کو روز مرہ سفر اور کاروبار میں دشواری کا باعث بن رہا ہے۔ مقامی تاجر بھی شکوہ کناں ہیں کہ بازاروں کی تجدید کی تاخیر سے ان کا روزگار متاثر ہوا ہے۔دوسری جانب حکام کا دعویٰ ہے کہ ادارے کے پاس مطلوبہ عملہ موجود ہے، اور آپریشنل سرگرمیاں جاری ہیں۔سرینگر سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے ایڈیشنل چیف ایگزیکٹو افسرنے حق اطلاعات قانون کی ایک درخواست میں کہا ہے’’ اگرچہ کچھ عہدے خالی ہیں، مگر کام پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑا، کیونکہ عارضی بندوبست جیسے ڈیپوٹیشن یا اضافی چارج کے ذریعے خلا پْر کیا جا رہا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ادارے میں فی الوقت کوئی بھی موجودہ ملازم اینٹی کرپشن بیورو کرائم برانچ یا پولیس کے کسی ادارے کے تحت کسی بھی کیس میں ملوث نہیں ہے۔ تاہم، 2سابق ملازمین کے خلاف کیس زیرِ التوا ہیں، جو پہلے ہی ادارے سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔دستاویز میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مارچ 2019 سے مارچ 2025 کے درمیان کسی بھی ملازم کو معطل نہیں کیا گیا، جسے محکمے میں داخلی نظم و ضبط کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔‘اب کا مزید کہنا ہے کہ ملازمین کی تعداد اور تفصیلات بھی اس بنیاد پر فراہم نہیں کی جا رہی ہیں کہ بیشتر پروجیکٹ تیسری فریق ایجنسیوں کے ذریعے مکمل کیے جا رہے ہیں اور ان سے وابستہ اعداد و شمار محکمے کے پاس مرتب شدہ صورت میں موجود نہیں ہیں۔