ثناءاللہ
ایک سلونی شام، جب آسمان پر نجم چمک رہے تھے، علی اور سارہ ایک پرانے پل پر کھڑے تھے۔ وہ دونوں بچپن کے دنوں سے ہی دوست تھے، لیکن حال ہی میں ان کی دوستی محبت میں بدل گئی تھی۔
علی نے سارہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کی آنکھیں آسمان کے تاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ “سارہ،” اس نے نرم آواز میں کہا، “تم میری جان ہو۔”
سارہ مسکرائی، اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ “علی، تم بھی میری جان ہو۔”
وہ دونوں پل پر باتیں کرتے رہے، اپنے خوابوں اور مستقبل کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ وہ ایک دوسرے سے وعدہ کرتے رہے کہ وہ ہمیشہ ساتھ رہیں گے، چاہے کچھ بھی ہو۔
لیکن زندگی ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔ کچھ عرصے بعد علی کو پڑھائی کے لئے دوسرے شہر جانا پڑا۔ وہ جدائی کے غم سے بھر گئے، لیکن انہوں نے ایک دوسرے سے رابطہ برقرار رکھا۔
وہ اکثر خط لکھتے اور فون پر باتیں کرتے تھے۔ علی سارہ کو اپنے دن، اپنے نئے دوستوں اور نئے شہر کے بارے میں بتاتا تھا۔ سارہ اسے اپنے خاندان، اپنی پڑھائی اور علی کی کمی کے بارے میں بتاتی تھی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، فاصلہ اور مصروفیت نے ان کے تعلق کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔ فون کالز کم ہوتی گئیں، خطوط کے جواب دیر سے آنے لگے۔ علی نئے لوگوں سے ملا، نئی زندگی بنائی اور سارہ اسے پہلے جیسی یاد نہ آتی تھی۔
ایک دن سارہ کو علی کا خط ملا۔ اس نے خط کھولا اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی، اس کا چہرہ اترتا گیا۔ علی نے اسے بتایا کہ وہ کسی اور سے محبت کرنے لگا ہے اور وہ ان کی دوستی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
سارہ کا دل ٹوٹ گیا۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ علی اس سے ایسا کرے گا۔ وہ روتی رہی اور علی کے الفاظ اس کے ذہن میں گردش کرتے رہے، “تم میری جان ہو۔” اب یہ الفاظ اسے جھوٹے لگ رہے تھے۔
کچھ عرصے بعد سارہ نے علی کو دوبارہ دیکھا۔ وہ ایک تقریب میں ملے تھے۔ علی نے اسے دیکھا اور اس کی طرف مسکرایا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا لیکن سارہ نے اس کی مسکراہٹ کا جواب نہیں دیا۔
علی اس کے پاس آیا اور بولا، “سارہ، تم بالکل ٹھیک لگ رہی ہو۔”
سارہ نے اسے سرد نظروں سے دیکھا اور کہا، “علی، تمہیں یہ سب یاد ہے؟” وہ اس شام کی بات کر رہی تھی جب علی نے اسے کہا تھا کہ وہ اس کی جان ہے۔
علی نے شرمندگی سے نظریں جھکائیں اور کہا، “ہاں، مجھے یاد ہے، لیکن…”
سارہ نے اسے بات کرنے نہیں دی۔ “لیکن کچھ نہیں، علی۔ تمہارے الفاظ بے معنی تھے۔ تمہاری محبت جھوٹی تھی۔”
وہ اس کے پاس سے گزر گئی اور تقریب سے چلی گئی۔ علی وہیں کھڑا رہا، اس کے ہونٹوں پر معذرت کا لفظ بنا ہوا تھا، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ سارہ کے لیے، علی صرف وہ شخص تھا جس نے اس سے “تم میری جان ہو” جیسے جھوٹے الفاظ کہے تھے۔
���
دارالہدی، بہار