طارق اعظم
قسط نمبر 1
میں نے آج تک تقریبا سو سے زائید کہانیاں رقم کی ہوں گی۔ لیکن آج ایک ایسی دلچسپ اور با ہمت کہانی خانۂ دل سے نکلی اور قلم کی نوک پر سنہرے الفاظ اظہار کے منتظر ہیں۔ واقعی میرا دل بھی کر رہا ہے کہ اس کہانی کو عرق گلاب سے زرد پتوں پر تحریر کروں کیونکہ ہمارے سماج میں جس عورت کو صنف نازک کی نظر سے دیکھتے ہیں وہی یہ صنف آہن کے کارنامے بھی انجام دیتی ہے۔ہاں یہ بات سچ ہے کہ عورت جسمانی طور سے بہت ہی نحیف ہوتی ہے لیکن جب تورایخ کی کتب کی ورق گردانی ہوتی ہے۔ تو کٹھن وقت میں جو قربانیاں اس عورت سے ارسال ہوئی ہیں۔ شاید ہی عورت کے متضاد سے ہوگئی ہوں۔ ہزاروں ایسے واقعات میری کوتاہ نگاہوں سے گزریں ہوں گے۔ مگر آج اس حقیقت کا مشاہدہ بھی ہوا۔ ظہر کی آذان ہوگئی تو لوگ ایک پرانی مسجد کی طرف حکم خدا ادا پر عمل کرنے کے لئے نکلے۔ صف آرائیاں ہوگئیں۔ امام صاحب خوش پوشاک، سر پر سفید ٹوپی چہرا سنت سے مزین، میانہ قد اور عطر عنبر سے معطر….نماز اختام ہوگئی…. کسی مقتدی نے دھیمی آواز سے کہا۔ آج امام صاحب یعنی نثار صاحب تھوڑے مغموم لگ رہے ہیںدوسرے نے بولا..چلو بھائی پوچھ کر خیر خبر معلوم کر لیتے ہیں۔وہ دونوں امام صاحب کے ذرا پیچھے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے….. حضرت آپ ٹھیک تو ہیں ناں…. آپ کچھ پریشان سے نظر آ رہے ہیں کیا بات ہے؟ امام صاحب نے کافی دیر تک خاموشی کا وقفہ لیا۔ آنکھوں سے درد سے لبریز آنسوں بہنے لگے۔ ہونٹوں سے تھر تھراتے الفاظ گرنے لگےاور غم سے ملبوس صدائیں کانوں کے پردوں سے ٹکرانے لگی۔ بھائیو…….کیا بتائیں….تھوڑی سی پریشانی ہے ۔ در اصل اللہ پاک نے مجھے نعمت عظمی سے نوازا تھا پر کہاں میری قسمت کی ٹیڑھی لکیریں۔وہ دونوں مقتدی احساس کی چادر میں لپیٹے ہوئے کہنے لگے…. امام آپ کھل کے بتائے ناں…. کونسا ایسا غم ہے جس نے آپ کو نڈھال کر دیا ہے۔ تو امام صاحب بولنے لگے. جی جب آپ اتنا اصرار کرتے ہیںتو اب دل میں چھپانا اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ میں جس نعمت عظمی کی بات کر رہا تھاوہ اصل میں میرا بیٹا ہے۔ جو شاید کچھ دو سال کا ہوگا۔ ہم دونوں میاں بیوی اس سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ نہایت ہی خوش شکیل ہے۔ خوشی کے دن گررتے گئےلیکن کیا کریں بھائیو وہ اچانک اک دن بہت بیمار ہو گیا ۔ دوائی علاج وغیرہ وغیرہ کرایا۔ لیکن کچھ خاص فرق نہیں ہوا۔پھر میں نے ایک بڑے ڈاکٹر سے اسکا چیک اَپ کروایا تو وہاں پتہ چلا کہ میرا بیٹا دل کا مریض ہے۔یہ دل دوز رپوٹ سنتے ہی جیسے میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی لیکن ہمت نہیں ہاری۔ اب ڈاکٹر نے بولا ہے کہ اسکا اپریشن تب ہی ہوسکتا ہے جب یہ کم سے کم چار سال کا ہوگا۔ اسی لئے تھوڑی سی پریشانی ہے ۔ میرے بھائیو… آپ دعا کیا کریں ناں…… دونوں مقتدی اشکبار ہو کر کہنے لگے، انشاء اللہ ہم دعا بھی کریں گے اور آپ کے بیٹے کے سر پر شفقت کا ہاتھ بھی رکھیں گے۔اللہ تعالی آپ کی مشکلات آسان کر دے۔ اچھا آپ بھی گھر جائیں اور ہمیں اجازت دیں امام صاحب۔ اسلام علیکم۔
وقت کا پہیا چلتا گیا۔ لیل و نہار بدلتے گئے۔سم بدلے رنگ بدلے روپ بدل گئے ،یہاں تک کہ نثار صاحب کا چہیتا بیٹا چار سال کا ہوا گیا۔ عمر کی ساری جمع پونجی رخت سفر میں امید اور دعاوں کے ساتھ باندھ لی۔گھر کی دہلیز پر کھڑے ہوئے۔اپنے بیٹے کو گود میں لیا لیکر اپنی بیوی سے اجازت مانگی اور نگاہیں آسماں کی طرف کر دیں۔ جیسے اپنے خالق کو اپنا حال دکھا رہے تھے۔گاڑی میں چڑھے اور سفر کی گھڑیوں کی تلخی سہتے گئے۔ اپنے علاقے سے دور کہیں پہنچے تو سینے سے لگا ہوا بیٹے کا گرم جسم نثار صاحب کو حیات کا احساس دلا رہا تھا۔لیکن اسے کیا خبر تھی کہ اسکے بیٹے کی روح جنت میں سانس لے رہی تھی۔ بیٹا…. بشارت…. دو تین آوازیں لگانے کے بعد بھی بشارت نے آنکھ نا کھولی ۔سم کا ہر عضو موت کے یخ سے منجمد ہوگیا تھا۔یہ منظر نثار صاحب کیلے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔چشم فلک نے دیکھا اور زمیں کے بدن نے محسوس کیا کہ امام صاحب پر اس غم کا کتنا گہرا اثر ہوا۔بشارت کی فرقت میں اب بہت اداس اداس رہتے تھے۔نثار صاحب کی اور بھی اولاد تھی۔لیکن جو لگاؤ مرحوم بشارت سے تھا۔وہ شاید ہی کسی اور سےتھا۔
لیکن کہتے ہے کہ ماں باپ کی نظر میں ساری اولادیں ایک جیسی ہوتی ہیں، اب نثار صاحب اپنے دوسرے لخت جگروں کی تربیت میں مشغول رہا کرتے تھے۔حلال رزق سے انکا معصوم بدن فولاد بنا رہے تھے۔ انکی جو بڑی بیٹی تھی آمنہ ، جسے پیار سے نور …نور…. بولا کرتے تھے، بچپن سے ہی باپ کی نصیحتوں پر ہاں میں ہاں کرتی تھی۔ والد کی نظر میں نور سچ مچ ذہین ثابت ہونے لگی۔ تو اسے دینی علم حاصل کرنے کیلے مدرسہ روانہ کیا۔ اک طرف سے بشارت کا غم وہی دوسری جانب اپنی اولاد کو کلام ربانی سے متعارف کرانے کا شوق، یہی تو مرد مومن کی نشانی ہوتی ہے۔ابھی کچھ ہی مہینے گزر چکے تھے۔ ہائے اب کہاں سے ہم دردی کے الفاظ لاؤں جو مجروح بدن کو مرحم کریں۔یہ محبت بھی ناں….بڑی ظالم چیز ہے۔بیٹے کے صدمے نے اندر ہی اندر سے ختم کر کے رکھا تھا، جیسے کوہ ہمالیہ کو ایک چھوٹے سے بارود نے ریزہ ریزہ کر دیا ہو۔ آج نثار صاحب کو بیٹے کے ہجر نے دم آخر سے ملاقات کرائی۔ یہ خبر پورے علاقے میں آگ کی طرح پھیل گئی۔جس مسجد کے مناروں سے نثار صاحب کی قرآت گونجتی تھی،ان ہی مناروں سے امام صاحب کے جنازے کا اعلان ہو رہا ہے۔ بہر حال کیا ہی کرسکتے ہیں۔ منشاء الٰہی کے سامنے۔
معمول کے مطابق شمس و قمر اک دوسرے کے تعاقب میں مگن ہیں۔ دنیا جہاں بہار سے لطف اندوز ہو رہے ہیںلیکن مرحوم نثار صاحب کی پاکدامن بیوی اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچے خزاں کے مسکن میں یادوں کے اشک بہا رہے ہیں۔مگر شاہدہ ،نثار کی بیوی، نے ہمت کی کمر بند باندھ لی۔ اپنے شوہر کی ذمہ داریوں کو نازک کندھوں پر لیا۔بچوں کو پالا پوسا اورانکی تربیت و تعلیم میں کوئی قصر نا چھوڑی، یہاں تک کہ بیٹی نور کے فکر و خیال میں بلاغت آنے لگی۔ وہ اب بہت سنجیدہ ہوگئی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ کچھ غم انسان کو بہت جلد سمجھدار بناتے ہے تونور اسی کہاوت کی مصداق بن گئی تھی۔وہ اپنے باپ بھائی کی جدائی پر رات کو سوتے وقت نرم تکیے پر معصوم آنکھوں سے گرم گرم موٹے موٹے تار باراں گراتی تھی۔ خود ہی خود سے ہم کلام ہوجاتی تھی۔ نور ….آپ کیوں رو رہی ہو۔ آپ تو ایک اچھے باپ کی بیٹی ہو ناں… آپ کو اپنے باپ کا نام زندہ رکھنا ہے۔ اپنی کمزور ماں اور چھوٹی بہن اور بھائی کی دیکھ بال بھی کرنی ہے۔ ان کا خیال رکھنا ہے۔لوگ کب تک ہمارے ہمدرد بنیں گے۔اسی لئے اپنے ہاتھوں سے کمائیں گے اور اپنے باپ کا نام بھی زندہ رکھیں گے… ہاے اللہ…..کیا معصومانہ جذبہ ……دل کرتا ہے کہ اس کہانی کو یہی بس کر دوں لیکن ابھی نور کی ہمت جزبہ اور ولولہ کہانی کے پہلے حصے سے بھی زیادہ تابناک ہے. اسی لیے سمجھتا ہوں.دوسرے قسط میں مکمل کردوں۔
ہردوشورہ ٹنگمرگ
موبائل نمبر؛[email protected]