ہلال بخاری
کچھ دن پہلے میں نے اپنی معصوم بیٹی سلسبیل کو اس کی کسی خطا کی وجہ سے بہت ڈانٹا۔ ڈانٹنے کے دوران میں نے کچھ ایسی تلخ باتیں بھی کہیں جو اس کے ذہن پر بہت گراں گزری ہونگی۔ ان تلخ باتوں میں سے سب سے تلخ بات یہ تھی،
” تم سے زندگی میں کبھی کچھ اچھا ہو ہی نہیں پائے گا۔ ”
یہ سن کر اسکی آنکھیں نم ہوئیں۔
بعد میں مجھ کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر میں کیا کر سکتا تھا۔ انسان کا ذہن اکثر تیش میں آکر بے قابو ہوجاتا ہے اور پھر اندھا دھند آگ کے گولے داغنے لگتا ہے۔ پھر جب ہم ہوش میں آجاتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ اس آگ زنی کی کوئی خاص وجہ نہ تھی۔
بہر حال اگلے دن جب میں اسکو کچھ اچھی باتیں سمجھا رہا تھا تو اس نے بڑے معصومانہ انداز میں مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا،
” ابو جان کل تو آپ نے مجھے بہت ڈانٹا۔”
مجھے اس وقت خاموش دیکھ کر اس نے موقع غنیمت سمجھا اور اپنا دل کو کھول کر کہا،
” ڈانٹنا تو چلو ایک بات ہے مگر آپ نے وہ باتیں کہیں جو میں آپ کے منہ سے سننے کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ آپ تو کچھ اور سکھاتے ہیںِ مگر اس وقت نہ جانے کیوں آپ نے کچھ اور سمجھایا۔”
میں نے اپنی غلطی کا احساس کرکے اسکے سوال کا جواب اسکے سوال ختم ہونے سے پہلے ہی سوچ لیا تھا۔ وہ جواب تھا،
” بیٹی حقیقت تو یہ ہے کہ میں خدا تو ہوں نہیں کہ مجھ سے کوئی خطا نہ ہو اور نہ کوئی پیغمبر ہوں کہ میری ہر بات پر حق ہونے کی کوئی سند ہو۔ میں کوئی ایسا ولی بھی نہیں کہ میں نے اپنے نفس کو اور اپنی خواہشات کو قابو کرلیا ہو۔ میں ایک عام انسان ہوں اس لئے مجھ سے غلطیاں سرزد ہونا فطری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ میری ہر بات صحیح ہو اور میری ہر آن بے خطا ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ جو بڑا ہو یا استاد ہو ہر وقت صحیح ہی ہوگا۔ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کم عمر ہی علم و دانش میں افضل ہو بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ مستقبل میں تم اپنی بہتری سے میری خطاؤں کو غلط ثابت کردو۔”
اس کے بعد مجھے احساس ہونے لگا کہ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوا اور مجھے اس بات کا احساس بھی ہونے لگا کہ اب سلسبیل بھی خود کو مطمئن محسوس کررہی ہے۔ اس نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مسکرا کر مجھے دیکھا اور میرے ہونٹوں کی مسکراہٹ نے اسکا استقبال کیا۔
���
ہردوشورہ کنزر ، ٹنگمرگ