Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

تندرستی انشائیہ

Mir Ajaz
Last updated: January 28, 2024 12:07 am
Mir Ajaz
Share
12 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عاشق آکاشؔ

کہتے ہیں کہ تندرستی خالق کائنات کی طرف سے بنی نوا ح انسان کو ملنے والی ایک عظیم نعمت بھی ہے اور امانت بھی ۔۔۔۔۔۔ اس نعمت میں ذرا سی بھی خیانت ہوجائے تو انسان کے حیاتیاتی توازن میں سنسنی پھیلنے لگتی ہے۔ اور اس سنسنی سے اس کے حوش و حواس اور خواہش و تمنا ئوںکے گلستان ریگستاں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ پھر اس کو ارد گرد دکھنے والا ہر ایک فرد موت کے فرشتے سے کم نہیں لگتا اور لہلہاتے کھیت( جن میں وہ تندرستی کے زمانے میں اچھلتا کودتا نظر آتا ہے۔ جو اس کو پرسکون اور پرمسرت لمحے فراہم کرتے ہیں )کسی قبرستان سے کم نہیں۔ ۔۔کھان پان کا پوچھئے ہی مت ۔ مرغے کو وہ کواّ سمجھتا ہے اور روغن جوش کو بینگن کی سبزی !!!! خیر دونوں کا مزہ چکھنے سے رہ جاتا ہے۔ تندرستی گر کسی سے روٹھ جائے تو اس کو منانا مشکل ہی نہیں ناممکن ثابت ہوتا ہے۔ یا یوں کہیئے کہ اس کو مناتے مناتے انسان زندگی کی بچی کُچی امیدیں بھی کھو بیٹھتا ہے۔
تندرستی کے اس کھیل کا مشاہدہ میں نے میاں غلام حسن کے گھر میں حال ہی میں کیا ۔ غلام حسن صاحب کی طبیعت کچھ مہینوں سے ناساز تھی۔ اس کا پیٹ اکثر خراب رہتا تھا۔ شاید انتڑیوں کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ ۔۔۔ انتڑیوں سے یاد آیا کہ یہ بھی انسان کے جسم میں نظام ہاضمہ کا ایک عجیب و غریب نیٹ ورک بچھا ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی خرابی انسان کو پشیمان کرتی ہے اور ایسی پشیمانی جس کے باعث اس کو اکثر بے آبروئی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
میں نے کئی بار مسجد کے دروازے سے انتڑیوں کے اس قہر کو پھوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب میاں حسن صاحب مسجد میں آتے آتے واپس نکل جاتے ۔ کیونکہ انتڑیوں کے مرض نے ان کو ایک نفسیاتی مریض بھی بنایا تھا۔۔۔ نانوائی کی دکان تک جانا تو دور وہاں سے گذرنا بھی ان کے لئے قیامت سے کم نہ گذرتا۔گذرتا کیوں نہ ۔وہاں کی اکثر روٹیاں حسن صاحب کے انوکھے درد پر بحث و مباحثے کے سہارے ہی تیار ہوتیں۔ یوں سمجھئے جب تک دردِ حسن کسی محفل کی زینت نہ بن جاتا وہ محفل محفل نہ رہ جاتی۔
۔۔۔ ہم دونوں ان کے صحن میں ابھی ایک دوسرے کا حال چال ہی پوچھ رہے تھے کہ اچانک کہیں سے گڑھ گڑھانے کی آواز میرے کانوں میں رسید ہوئی اور حسن صاحب آناً فاناً بجلی کی رفتار سے غائب ہوگئے۔ کچھ لمحہ بعد ان کو بیت الخلا سے باہر آتے آتے دیکھا۔ اتنے افسردہ !!! جیسے کہ ابھی ابھی ان کا کوئی پیارا اللہ کو پیارا ہوگیاہو۔ وہ دنیا سے بالکل اوجھل لگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ میں تو ان کے لیے بالکل اجنبی سا بن گیا تھا۔ ان کی حالت دیکھ کر اس دن مجھے اس بات کا مکمل یقین ہوگیا کہ ’’ جان ہے تو جہان ہے‘‘ بے چارے من ہی من کچھ بڑبڑاتے ہوئے ۔۔۔شاید ان کے ڈاکٹر کی تعلیمی اسناد کی جانچ پرکھ ہورہی تھی۔ ۔۔
میں اپنی آبرو کو اپنی رفتار میں سمیٹتا ہوا سیدھا اپنے آنگن پہنچا۔ بچوں کے جھولے پر جھولتا ہوا اپنے پیٹ کو دبانے لگا۔ عاجزی اور انکساری سے اس کی اور مخاطب ہوا۔
’’ ارے بے رحم کبھی تو بھی میرا حال میاں حسن صاحب کے حال جیسا نا کریو!!!‘‘۔
اور بنا کسی تکلف کے اپنے مستقبل میں گم ہوگیا۔ ٹھیک تب تک جب تک کہ گھر والی نے گھر والا ہونے کا احساس ان الفاظ سے نہ دلایا :
’’اجی سنتے ہو ہلدی اور چینی ختم ہوگئی اور چاول بھی صرف آج کے لیے ہی ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی میرے بے جان جسم پر بے قراری نازل ہوئی اور میں بازار کی اور چل پڑا۔
ہمارا نظام صحت بھی ایک منفرد ادارہ ہے ۔ اس کا شاید ہی دنیا میں کوئی ثانی ہوگا۔ اسپتالوں میں لمبی لمبی قطاروں میں لگنے کے بعد دھکا مکی کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ دنیا کے کسی عاشق اور معشوق کووصال کی خاطر اتنی تَگ و دَو نہیں کرنی پڑتی جتنا کہ ہمارے ہاں مریض کو ڈاکٹر صاحبان کے وصال کی خاطر پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ اگر کسی کو وصال کی یہ نعمت نصیب ہو بھی گئی لیکن یہ ہرگز بھی لازمی نہیں کہ وہ اپنی آپ بیتی کا دُکھڑا سنانے میں کامیاب ہوجائے اور جو اس نعمت وصال سے محروم ہوجاتے ہیں وہ اپنے درد کا سارا غبار اہل خانہ پر ہی پھوڑتے ہیں۔
یوں تو اکثر مریضوں کا درد قطاروں میں ہی رفو چکر ہوجاتا ہے اور وہ روٹھے عاشق کی طرح ان گلیوں میں دوبارہ نہ جانے کی قسمیں کھا کھاکر گھر کی راہ لیتے ہیں ۔ لیکن بر آمدے میں پہنچتے ہی ان کو یہ ہجر ایسا ستاتا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحبان سے ملنے کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں اور اس بے قراری میں ان کے اپنے بھی کسی مرہم کا کام نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان تندرست تو رشتہ تندرست!! ورنہ keep silence والے پوسٹر گھروں میں بھی چسپاں ہونے لگتے ہیں۔
کچھ عرصہ بعد جب میاں حسن صاحب کو سرکاری اسپتال میں کام کررہے سنگ دل معشوق کے وصال نصیب نہ ہوپائے تو انہوں نے بھی پیٹ کو پکڑتے پکڑتے اپنی راہ بدل دی۔ اب وہ پرائیویٹ اسپتال پر فریفتہ ہوگئے۔ اس کی کئی منزلہ عمارت نے تو حسن صاحب کے سر کی ٹوپی تک گرادی۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ ہاتھ اس کے پیٹ سے ابھی ہٹے نہیں!!! حیرانگی اس بات کی ہے کہ وہ عادت سے مجبور تھے یا درد سے ۔۔۔ مجھے یہ بات ہمیشہ ستاتی رہی۔
ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے میاں حسن صاحب کے دونوں گردوں کو ناکارہ قرار دیا۔ حالانکہ درد پیٹ میں تھا لیکن اسپتال کی جدید ٹکنالوجی نے گردوں پر ڈاکہ ڈال دیا۔ پھر کیا تھا کریم کا ایک گردہ بلی چڑھ گیا۔ جس پر سروہ نے پورے دو دن کھانا کھا نا ہی چھوڑدیا اور تیسرے دن اپنے گردوں کو بچاتے بچاتے سیدھے میکے روانہ ہوئی۔ ’کریم ‘حسن صاحب کا بڑا بیٹا تھا اور سروہ کریم کی بیوی ۔
کچھ روز بعد اسپتال سے چٹھی تو مل گئی لیکن میاں حسن صاحب کے ہاتھوں کو پیٹ سے چھٹی ہر گز نہ ملی۔
میں جب بھی پاس والے میڈیکل اسٹور پر دوائی خریدنے جاتا ہوں تو واپسی پر ضرور غلام رسول صاحب مجھے یہ کہہ کر ٹوکتے ہیں کہ بیٹا میں نے تمہیں کتنی بار کہا کہ یہ دوائیاں نہیں مٹی ہے مٹی۔۔۔ اور مٹی تو ہمارے کھیتوں میں مفت دستیاب ہے ۔ پھر تم اس پر پیسے کیوں خرچتے ہو۔۔میں بھی مسکراہٹ سے ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوںلیکن میرا دل ان کی باتوں کو ماننے سے مجھے تب تک روکے رہا جب تک کہ اس میڈیکل والے نے ایک عورت کی جان انجکشن لگاتے لگاتے لے لی۔ لیکن الزام حضرت عزرائیل پر ہی آن پڑا۔
یہ معاملہ الگ ہے کہ اس پر بات کسی نے نہ کی کہ وہ خدا کا بندہ کئی برسوں سے کسی سند کے بغیر ہی یہ اسٹور چلاتا آرہا تھا ۔ اس دن سے میں نے بھی غلام رسول صاحب کی باتوں کا تعویز اپنے گلے میں ڈال دیا۔ تب سے بچوں کے نزلہ زکام کے ساتھ ساتھ جورو کی زبان بھی بہتی رہتی ہے!!!
سند سے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی میرے قریبی دوست سلمان کی واحد شریکِ حیات فرزانہ کے چہرے پر نکلے کچھ دانوں نے ان کے ایامِ شباب پر جب افسردگی کا کہرہ ڈال دیا تو کسی کے صلاح مشورے کے بعد سلمان فرزانہ کو پاس ہی میں جلد کے ایک ڈاکٹر ، ’ڈاکٹر گلزار‘، کو دکھانے لے گیا۔ کئی ہفتوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ سلمان کی جیب خالی ہونے پر اب بات نئی نویلی دلہن کے زیورات پر بن آئی۔ فرزانہ ہفتوں تک ڈاکٹر گلزار کے دئے ہوئے مرہم کو پوجتی رہی۔ حتیٰ کہ اس کا گلاب نما چہرہ انگیٹھی پر رکھے توے کی مانند ہوگیا۔بے چاروں کی تازہ شادی خانہ بربادی میں تبدیل ہوگئی۔ بعد میں پتا چلا کہ ڈاکٹر گلزار جعلی پور کا رستم نائی تھا جواپنے گائوں سے نائی کے پیشے میں کام کم ہونے کی وجہ سے نکل آیا تھا۔ پھر میں بھی اُن حسینائوں کی گنتی کرنے میں جُڑ گیا جن کا حُسن رُستم نائی( ڈاکٹر گلزار) کے مرہم سے مرحوم ہوا تھا۔
میں نیم مردہ حالت میں بھی گھر میں بیماری کی کبھی شکایت نہیں کرتا۔ یا یوں سمجھیے کہ میں بیمار ہوکر بھی بیمار نہیں ہوتا۔۔ ایسا کرشمہ بھلا آپ کہاں دیکھ پائیں گے !!!مگر اس کا سارا کریڈٹ شفا خانے کو ہی جاتا ہے ۔ جس کا نام اگر میرے کوسوں دور بھی لیا جائے تو میری طبیعت میں سنسنی پھیل جاتی ہے میں ٹھیک نا ہوتے ہوئے بھی ٹھیک ہونے لگتا ہوں اور ٹھیک ہوتے ہوئے بھی میری طبیعت بگڑجاتی ہے۔ اس طرح میں کوئی جسمانی بیماری لاحق ہوتے ہی نفسیاتی مریض بن جاتا ہوں۔ اور چھوٹے بچوں کی طرح ڈاکٹر کے پاس جانے کا ڈر مجھے اندرہی اندرستاتا رہتا ہے۔ ستائے کیوں نا!!! مجھے جوحسن صاحب کا پیٹ اور ان کے ہاتھ یاد آتے ہیں۔غلام رسول کی باتیں تو میرے دل و دماغ پر منقوش ہیں ہی۔ اور بے چاری فرزانہ!!!جس نے اپنے شباب کے دن رُستم نائی کی دُکان جاتے جاتے گنوائے۔بد نصیب سلمان کا کیا !!اس کے جذبات تو سردیاں آنے سے پہلے ہی ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔۔۔
اس لئے اب میں بھی تندرستی کو مالک کی امانت ہی سمجھتا ہوں اور میں نے یہ منتر دل و دماغ میں پیوست کیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی خیانت نظام کائنات کے ساتھ چھیڑ خانی کے مترادف ہے اور میں یہ قطعی نہیں چاہتا کہ میرے رشتوں میں کسی قسم کی کمزوری آجائے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ :
’’تندرستی ایک نعمت ہے ورنہ زندگی ایک قیامت ہے ‘‘
���
برنٹی اننت ناگ جموں کشمیر ،موبائل نمبر؛9906705778

 

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
وندے بھارت ٹرین سے نہ صرف سیاحت بلکہ رابطے بھی بڑھیں گے:ناصر اسلم
تازہ ترین
ملک میں کورونا انفیکشن کے فعال کیسز کی تعداد تقریباً سات ہزار، مرنے والوں کی مجموعی تعداد 68پہنچ گئی
تازہ ترین
اودھم پور میں منشیات فروش گرفتار، ممنوعہ مواد بر آمد:پولیس
تازہ ترین
ایس آیی اے کے ساوجیاں میں چھاپہ مار کارروائیاں
پیر پنچال

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?