سہیل سالمؔ
بے روز گاری کے تپتے صحر ا میں سفرکرتے ہوئے جب اسے روزی روٹی کا کوئی پودا نظر نہیں آیا تو اسے پھر یہ احساس ہوا کہ اب مزید نئے راستے تلاش کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ماں کے ہاتھوں کے چھالے ،گھر کی خستہ حالت،دوستوں کی مستیاں ،رشتہ داروں کے رکھ رکھائو اور رشوت خواری کا گرم بازار دیکھ کر اس سے اپنے آپ سے بھروسہ اٹھ گیا۔
ہر وقت اپنے وجود کو خاموشی کے غار میں ملامت کرتے رہنا اور اپنے آپ سے باتیں کرنا اب اس کی عادت بن چکی تھی ۔گھر والے اس کی یہ حالت دیکھ کر تذبذب کے شکار ہوگئے تھے۔اپنی اس اضطرابی کیفیت اور ذہنی پریشانی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اس نے مختلف وسائل کا استعمال کرنے کی کوشش لیکن وہ سب رائیگاں ہوئے۔آخر کار اس نے اپنی بہن کے پیسوں پر ہاتھ ما رکرنشے کی گولیاں آن لائن خرید لیں۔ اب یہ ان گولیوں کا بے دریغ استعمال کرتا رہتا ہے۔اس کا سکون اب ان ہی گولیوں میں پنہاں تھا۔
ایک شام اس کے کمرے سے زور زور سے چیخنے کی آوازیں آنے لگی۔ماں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا روشن کی ناک سے خون بہہ رہا ہے اور وہ فرش پر بے ہوش پڑا ہے۔اس کی ابتر حالت دیکھ کر ماں نے بھی زور زور سے روناشروع کیا ہمسائے اور گھر کے سارے فر د روشن کے ارد گر د جمع ہوگئے۔بھائی اور بہن کو ساتھ لے کر ان کے پڑوسی نے گاڑی نکال کر اسے اہسپتال پہنچا دیا۔ڈاکٹروں نے اس کی تشویش ناک صورت حال دیکھ کر اسے ایمر جنسی واڑمیں بھرتی کیا۔ ڈاکٹروں کی جانچ پڑتال کے بعد یہ معلوم ہو کہ روشن کے دماغ کی اندرونی نسیں بری طرح مجروح ہوچکی ہیں اور فوری طور پر اس کا آپریشن کرناپڑے گا۔
ڈاکٹر حیات نے اس کی بہن کو خون کا بندوبست کرنے کو کہا۔ خون کا انتظام کرنے کے بعد آپریشن کی تیاریاںشروع کردیں۔روشن کا آپریشن تین گھنٹے مسلسل جاری رہاکیونکہ اس کے دماغ کی اندرونی نسوںمیں شاید ہی کوئی نس متاثر ہونے سے بچی ہو۔ آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی اس کو پھر سے ایمر جنسی واڑمیں منتقل کردیا گیا۔ تب تک روشن کی ماں بھی ہسپتال پہنچ چکی تھی اور بے چینی کے عالم میںزور زور سے روشن ۔۔ روشن۔۔ روشن جان پکار رہی تھی اور آنکھوں میں آنسوئوں کا سمندر لئے ہوئے ایمر جنسی واڑ کی کھڑکی سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔اپنے بیٹے کے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنے کے لئے وہ ڈاکٹر حیات کے کمرے میں گئی اور ڈاکٹر سے پوچھا ۔۔وہ کیسا ہے؟
’’ روشن نے موت کی دہلیز پر قدم رکھاہے۔ا ب یہ چند دنوںکا مہمان ہے۔نشے کی گولیوں نے اس کے دماغ سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔دماغ ہی نہیں بلکہ اس کے دل کو بھی متاثر کیا ہے۔
ڈاکٹر حیات کی یہ باتین سن کر روشن کی ماں کے ارمانوں کا محل ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا۔اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو ئوں کی برسات شروع ہو رہی تھی اور وہ پھر ایمر جنسی واڑکی طرف چلی گئی۔
ایمرجنسی وارڈ کی وہ رات روشن کی ماں کے لئے قیامت سے کم نہیں تھی ۔رات بھر آہ زاری اور رونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میںسارے خواب دم توڑ چکے تھے۔کچھ عرصہ کے بعد جب ڈاکٹر حیات پھر سے مریضوں کو دیکھنے کے لئے ایمرجنسی واڑ میں آیا تو اس نے روشن کی رات کی رپوٹس دیکھیں تو پتہ چلا کہ دو تین بار اس کی ناک سے خون بہہ گیا ہے۔اس وقت روشن اپنی آنکھوں سے بہن کوبلانے کی کوشش کر رہاتھا مگر اس کی بہن اپنی ساری مشکلات لے کر دربار الہی میں گئی تھی ۔
کچھ دیر بعدجب وہ واپس لوٹ کر آئی تو اس نے۔
ڈاکٹرحیات کو اپنے بھائی کے قریب کھڑا دیکھ کر آہستہ آہستہ سسکتی ہوئی سر گوشی نما آواز پوچھا۔۔۔
’’یہ کب؟۔۔ ہوش میں آیا گا۔۔۔‘‘
’’بہت جلدی ‘‘۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا
’’ڈاکٹر صاحب روشن میرے تباناک مستقبل کا روشن ستارہ ہیں۔ روشن کو میرے ہاتھ مہندی سے رنگنے ہیں۔۔میری آزروئوں،ارمانوں اور امنگوں کی بنیاد اس کے وجود سے قائم ہیں‘‘
پھر سے نمناک لہجے میں کہا۔۔۔۔
’’ڈاکٹر صاحب اسے کب ہوش آئے گا۔۔۔‘‘
ڈاکٹر حیات کو آج پہلی بار اپنے منہ سے نکلے ہوئے لفظ بے جان لگے۔اس کے لہجے کی اداسی کو روشن کی بہن نے محسوس کر لیا۔آج وہ ڈاکٹر حیات بن کر کسی کی حیات میں رنگ نہیں بھر سکتا ہے۔
’’جی جی بیٹا۔۔۔ اسے جلدی ہوش آئے گا‘‘
’’ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ‘‘
ابھی ڈاکٹرصاحب بیڈنمبر 4کے مریض کا بلڈ پریشر چیک ہی کر ریا تھاکہ اچانک روشن کے مانیٹر کی بیپ تیزی سے سنائی دی ۔ڈاکٹر صاحب تیزی سے بیڈ کے قریب پہنچے اور سسٹر کو انجکشن لانے کو کہا۔ انجکشن لگانے کے بعد بھی پھر سے مانیٹرکی بیپ مسلسل تیزی سے سنائی دینے لگی۔ڈاکٹر صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی لیکن روشن نے آنکھیںموندلیں اور اپنے اہل خانہ کو اندھیرے کے راستے پر بے بس چھوڑ دیا۔
روشن کے گھر کی خستہ دیواریں،روشن کے ماں کی صحت اور روشن کے چھوٹے بھائی کی تعلیم کا بوجھ،روشن نے اپنی بہن کے کندھوں پر ڈال کر خود کومنشیات کی سولی پر چڑھا کر گھر کی بنیادد ہلا کر رکھ دی۔اب روشن کی بہن اپنے گھر کی بنیاد بحال کر نے کے لئے کام کی تلاش میں نکلی۔مختصر جدوجہد کے بعد اُسے ایک این جی او میں بحیثیت فیلڈ ورکر نوکری مل گئی۔آہستہ آہستہ اب گھر کی ضروریات پوری ہونے لگیں۔گھر کے آنگن میں پھر سے بہارکے آثار نمودار ہوئے۔اب یہ اپنا کام محنت ،عزت اور خاموشی سے کرنے لگی۔این جی او والے اس کا کام دیکھ کر متاثر ہوئے۔اپنے گردونواح میں پھیلنے والی وبائوں کے خلاف اس کا کام قابل رشک تھا۔اس نے کئی لوگوں کے گھر اُجڑنے سے بچائے،اس نے کئی سوکھے ہونٹوں پر ہنسی لائی اور اس نے کئی لوگوں کے خوابوں کو حقیقت کا لباس پہنایا۔
آج این جی او کی سلور جبلی کی تقریب بڑے دھوم دھام کے ساتھ منائی گئی۔شہر اور بیرون شہر کے معزز مہمانوں اور لوگوں نے شرکت کی ۔این جی او سے وابستہ ہر ایک فرد نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔جب اس کی باری آئی تو اس نے کہا’’یہ جو نئے اندھیرے کا خالق ہے اس نے نئی نسل کی زندگیوں سے روشنی چھین کر انھیں اندھیرے کے راستے پر چلنے کے لئے مجبور کیا ۔مجھے امید ہے ہماری این جی او بے روزگاری کے ساتھ ساتھ نئے اندھیرے کے خالق سے لڑنے کے لئے تیاریاں شروع کرے گی۔ ‘‘
���
رعناواری سرینگر؛9103654553