Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

مکافاتِ عمل کہانی

Mir Ajaz
Last updated: September 11, 2022 12:27 am
Mir Ajaz
Share
11 Min Read
SHARE

ریحانہ شجر
نفسیاتی ہسپتال کی انچارج ڈاکٹر نمی آچاریہ نے ٹیم کے ساتھ جانچ کے دوران مریضہ نورین کی حالت میں سدھار دیکھ کر اطمینان کی سانس لی۔ ٹیم کے ایک ممبر ڈاکٹر اَئیرنے ڈاکٹر نمی سے مخاطب ہوکر کہا کہ مریضہ نورین اب ٹھیک ہو رہی ہے، البتہ اگر ابھی بھی مریضہ کو اس چھوٹے سے صندوق پر نظر پڑتی ہے یہ بہت اداس ہوجاتی ہے اور گھنٹوں تک خاموش رہتی ہے ۔پہلے صندوقچہ دیکھ کر چیختی چلاتی تھی اور اپنے بال نوچ لیتی تھیں اور جب مریضہ کو باہر چہل قدمی کے لئے لے جاتے تھے تو پیڑ کے سامنے رک جاتی تھی اور اسی ردعمل کا اظہار کرتی تھی۔ لیکن اوپر والے کی مدد اور ہماری کوششوں سے اب مریضہ ٹھیک ہو رہی ہے ۔
ڈاکٹر اَئیر نے مزید کہا کہ میرے خیال میں کچھ وقت کے بعد شاید مریضہ خود اس صندوقچہ کے بارے میں بات کریں گی۔ اس نے مزید کہا کہ مریضہ نورین صدمے سے باہر آنے کے بعد دستکاری میں مہارت حاصل کر چکی ہے اور اچھا کام کر رہی ہے۔حوصلہ کن بات یہ ہے کہ مریضہ نورین کوکام کرنے میں ایک بھی غلطی نہیں ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔!اَرمان نے اپنی زندگی کی کتاب سے ماضی کے کالے پنے پھاڑ ڈالے تھے اور آج اپنی شاندار حویلی کی آرام گاہ میں دیوان پر لیٹا محوِ خواب تھا، ایسے میں اس کی بیوی فِضا چائے کی شاندار ٹرے لے کے آگئی۔ پیالوں کی کھنک سن کر ارمان جاگ گیا۔ چائے بنانے کے بعد فِضا شوہر ارمان کے ایک طرف بیٹھ گئی اور دونوں چائے کی چُسکیاں لینے لگے ۔
ایسے میں باہر شور سنائی دیا کسی نے آکے بتایا کہ راحیل اور رحمت دونوں بھائی برامدے میں بے ہوش پڑے ہیں۔ ارمان نے جلدی سے باہر آکے دیکھا واقعی ان کے دونوں بیٹے زمین پر گر پڑے تھے ۔اس نے باری باری دونوں کو اٹھا کے بستر پر لٹا دیا۔ ارمان کو دونوں بیٹے جان سے زیادہ عزیز تھے۔ اس نے بچوں کو تھپکی لگائی لیکن بچے ہوش میں نہیں آرہے تھے ۔ ارمان اور اس کی بیوی فضا بچوں کو سنبھالنے لگے۔بچے ہوش میں آگئے ارمان نے اطمینان کی سانس لی۔صبح کے سات بجتے ہی راحیل اور رحمت خود بستر سے اٹھ کے حسب معمول ناشتہ کرنے لگےاور سکول کے لئے تیار ہونے لگے۔ ارمان بچوں کو دیکھ کر خوش ہوا۔
ارمان کے دل میں اس وقت وسوسے اور خدشات پیدا ہونے لگے۔ جب ہر دوسرے تیسرے دن مغرب کے بعد بچے اسی طرح بے ہوش ہوجاتے تھے۔صبح سورج طلوع ہوتے ہی دونوں بچے معمول کے کام کرنے میں مصروف ہو جاتے تھے ۔یہ عجب سا معاملہ دیکھ کر گھر میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔
ارمان نے شہر کے سب سے بڑے نیورولاجیسٹ ڈاکٹر خلیل الزمان سے رابطہ کیا جس کے مشورے پر دوسرے روز اَرمان بچوں کو لے کے شہر چلا گیا۔ ڈاکٹر خلیل الزمان کو کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ بظاہر بچے نہ تو کمزور تھے اور نہ ہی بیماری کی کوئی علامت تھی۔ انہوں نے نیورولاجی سے وابستہ ڈاکٹروں کی ٹیم تشکیل دی اور ان ساتھ مل کر بچوں کو ٹیم کی نگرانی میں کئی مہینوں تک رکھا گیا۔ٹیم کے ممبران اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں بچے راحیل اور رحمت توانائی اور زندگی سے بھری پہلی کرنوں کے ساتھ اٹھتے ہیں۔ جیسے جیسے سورج مغرب کی طرف جاتا ہے بچوں کی طاقت ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔
ڈاکٹر خلیل الزمان، جو میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی تھے،کے مطابق یہ ایک نایاب طبی حالت تھی جس کا سامنا ملک میں پہلی بار ہوا تھا اور وہ تحقیقات کر رہے تھے۔ بچوں کو ہسپتال میں الگ وارڈ میں رکھا گیا ۔ ہسپتال کا عملہ راحیل اور رحمت کو شمسی بچے نام سے جاننے لگے ۔
ارمان پانی کی طرح پیسے بہا رہا تھا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔وہ بد حال اور پریشان بچوں کو لیکر واپس اپنے گاؤں پہنچ گیا۔
گاوں لوٹنے کے بعد بھی ارمان نے بچوں کے انگریزی اور دیسی علاج پر پانی کی طرح پیسہ بہایا ، یہاں تک کہ پیروں فقیروں اور آستانوں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
اسی مایوس کن ماحول میں ایک دن دستک سن کر ارمان نے دروازہ کھولا تو سامنے پولیس انسپکٹر جمیل راٹھور اور انسانی حقوق کمیشن کے انچارج مسٹر ضمیر جعفری کو دیکھ کر اس کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔ لیکن اس کے غرور میں ذرا سی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ انسپکٹر جمیل راٹھور نے ارمان کو گرفتاری کا وارنٹ دکھا کر اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔
معاملہ عدالت تک پہنچ چکا تھا ۔ عدالت نے اس کیس سے جڑے تمام لوگوں کو عدالت میں حاضر رہنے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت میں ارمان کو پہلی بیوی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے انکار کردیا۔ اس کے بعد ایک عورت کو حاضر کیا گیا عدالت نے اس عورت سے پوچھا ،تم کون ہو اور مسٹر ارمان کو کیسے جانتی ہو ۔
عورت نے کہا کہ میرا نام نورین ہے اور میں ارمان کی بیوی ہوں میری شادی دس بارہ سال قبل ارمان کے ساتھ ہوئی تھی۔
اس سے پہلے نورین مزید کچھ کہتی، ارمان نےاسے ٹوک کر کہا ’کیسی شادی ، شادی تو اسی وقت منسوخ ہوگئی تھی جب نورین اپنا دماغی توازن کھو کر پاگل ہو گئی تھی۔ میرے پاس اس کا ثبوت ہے‘ ۔
نورین نے کہا ’جج صاحب میں نے دماغی توازن نہیں کھویا تھا اور نہ ہی میں پاگل تھی بلکہ ارمان نے میرے ساتھ اتنے تشدد کئے جن کا کوئی حساب ہی نہیں‘۔
نورین نے مزید کہا کہ ارمان کے ساتھ شادی کے ایک سال بعد میں نے پہلی بیٹی کو جنم دیا۔ جب اُس روز اَرمان مغرب کے وقت گھر آگیا تو بیٹی کی پیدائش کے بارے میں سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ اس نے میرے پہلو سے بچی کو چھین کر صندوقچہ میں ڈال دیا اور پھر صندوقچہ کو پیڑ کی شاخ کے ساتھ ٹانک دیا۔ میرے شور مچانے پر اس نے مجھے اتنا پیٹا کہ تین دن بعد مجھے ہوش آیا ۔اُس بچی کے ساتھ آگے کیا ہوا مجھے نہیں معلوم۔ میں تین بار ماں بن گئی تینوں بار میں نے لڑکیوں کو جنم دیا۔ تینوں بار بچیوں کو جنم دینے کے بعد ارمان شام ہوتے ہی میرے پہلو سے بچی کو چھین کر لے جاتا تھا اور اس کے بعد بیٹی پیدا کرنے پر مجھے تب تک پیٹتاتھا جب تک میں بے ہوش ہو جاتی تھی۔ تینوں بار میرے ساتھ ایسا ہی تشدد ہوتا رہا۔ٹوٹی ہوئی کمر گھسیٹ کے کئی دونوں بعد جب میں کمرے سے باہر نکلتی تھی یہ صندوقچہ مجھے برامدے میں خالی پڑا ملتا تھا۔میں اس صندوقچہ کے ساتھ باتیں کیا کرتی تھی۔ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھی تھی، بھلا اس قدر تشدد جھیل کر کون ماں اپنے ہوش میں رہ سکتی ہے۔میرا جینا کس کام کا جو میں ایک بھی بچی کو بچا نہ سکی یہ سوچ کر میں دیوانی ہوئی جاتی تھی ۔
اس کے بعد میں نے روز ارمان کو بچیوں کے بارے میں پوچھنا شروع کیا جس کی وجہ سے اس نے مجھے مزید تشدد کا نشانہ بنادیا۔ بار بار میرا پوچھنا کہ بچیوں کے ساتھ کیا ہوا اس کے لیے درد سر بن گیا،اور آخر کار مجھے اس شخص نے پاگل خانے میں چھوڑ دیا ۔ میرا اپنا کوئی نہیں تھا جس کے پاس جاتی اور جو میرے حق میں ارمان سے جواب مانگتا۔میں یتیم تھی میرا نہ کوئی بھائی اور نہ ہی بہن تھی۔ ارمان کو میں نے مجازی خدا جان کر اپنا وجود سونپ دیا لیکن اس نے جلاد بن کر میرے وجود کو تار تار کردیا۔اب آپ ہی بتائیں جج صاحب پاگل کون تھا ؟ وہ جس نے زندہ بچیوں کو مارڈالا ، یا میں جس پر یہ تشددہوا۔
مجھے ابھی بھی ان بچیوں کی درد ناک آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ منظر یاد کرکے میرا جگر چھلنی ہو جاتا ہے ۔نورین یہ کہتے ہوئے اس قدر ٹوٹ گئی کہ اس کو چپ کرانے میں آس پاس موجود لوگ ناکام ہوئے۔ڈاکٹر نمی آچاریہ نے کہا اس کو وہ سارے آنسوؤں بہانے دو جو آجتک اس نے اپنے اندر دفن کئے ہیں۔
ارمان کی دوسری بیوی فِضا ،شوہر ارمان کے پیچھے عدالت پہنچ گئی نورین کی کہانی سن کر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی اور کہا تمہارے صبر نے ارمان کی دنیا تہس نہس کرکے رکھ دی ہے۔ رب نے دو لڑکے عطا کیے لیکن دونوں کسی بے نام درد میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹر حضرات ان کو شمسی بچے Solar kids کہتے ہیں۔سورج طلوع ہوتے ہی ان میں جان آتی ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی وہ صرف اپاہج ہی نہیں بلکہ اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں۔
اس نے آگے کہا کہ میری بہن یہ دنیا مکافات عمل کی چکی ہے چلتی بہت آہستہ ہے مگر…پیستی بہت باریک ہے۔
���
وزیر باغ، سرینگر،[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
پہلگام حملے کے بعد احتیاطی طور بند کی گئیں کئی پارکوں کو دوبارہ کھول دیا گیا
برصغیر
عمر عبداللہ کی ’’آئی اے ٹی او‘‘وفد کے ساتھ ملاقات
تازہ ترین
ایرانی فوج کے سربراہ شادمانی کی موت: اسرائیل
بین الاقوامی
کشمیر کی سیاحت کو سپورٹ کرنا ہماری ذمہ داری ہے:آئی اے ٹی او
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?