مولانا رومؒ نے فرمایا ہے کہ تہذیب کی اصل یا بنیاد آدمی کا احترام ہے ۔ حریت فکرو عمل احترام آدمیت کی دلیل ہے اور غلامی احترام ِآدمیت کی نفی کر تی ہے۔ اسلامی تہذیب کی شنا خت انسان پر انسان کی غلا می کو ختم کر کے انسان کو صرف خا لق کا ئنات کا غلام بنا تا ہے۔انسان پر انسان کی غلا می تہذیب اسلامی کی بیخ کنی پر منتج ہو تی ہے۔ بر عکس اس کے رب کائنات کی غلامی تہذیب انسانی کو نکھا رتی ہے ، اس کے نو ک پلک سنوارتی ہے اور احترام آدمیت کی کلی طور لاج رکھتی ہے۔امت مسلمہ اسی معنی میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہو ئی ہے کہ اس پرغیر اسلامی نظریات کا تسلط ہے جن کی اساس اور بنیاد ہی انسان پر انسان کی غلامی ہے۔ انسان پر حاکمیت الٰہ کا تسلط ہی انسانی حریت و آزادی کہلائی جاتی ہے۔ قرانی تعلیمات حاکمیت الٰہ پر یوں دال ہیں’’ وہ پو چھتے ہیں کہ حکم میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے ۔کہہ دو حکم پورے کا پو را اللہ کا ہے(آل عمران،۵۴)۔ خدا کے سواحکم کسی کے کئے نہیں ہے(الانعام۔۔۵۷) ۔ اللہ جو چا ہے حکم دے۔(المائدہ،۱)۔ْاسکے کام میں سوال نہیں کیا جا سکتا ۔۔(الانبیاء: ۲۳)۔
جمو ں و کشمیر مسلم اکثریتی ریا ست ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے ہمارے لئے غیر اسلامی نظا مہائے حیات مثلاً سو شلزم ، سیکو لرازم ، سیکو لر ڈیمو کریسی، مارکسزم ، فاشزم، لبرل ازم، وغیرہ کے خلا ف حتی ا لوسع قدمے ، قلمے ، سخنے، درمے رائے عامہ خالصتاًپر امن ذرائع سے منظم کر نا اقتضائے قرآن وسنت ہے ۔ اس معنی میں جمو ں و کشمیر کا سواد اعظم بھارت اسٹیٹ کے نظا م ِزند گی جو اسلامی فکر و عمل کے متوازی نظا م ہے، ہند سے گلو خلا صی چا ہنا کوئی بدامنی یا بے وفائی نہیں ہے بلکہ ایک ہمارا ایک اہم وظیفہ ٔ زندگی ہے۔ ایسا کر نا اسلامی نظا م حیات کا خا صا اور طرہ ہے۔ اصولاًجمو ں و کشمیر کا سواد اعظم اسٹیٹ بھارت کی سا لمیت کے خلا ف نہیں، بھارتی عوام یاان کے دین دھرم کے خلا ف نہیں بلکہ بھارتی قیادت کی اس آمرانہ سوچ کے خلا ف بر سر پیکار ہے جس کی رُو سے یہ قیادت جموں و کشمیر کے سواد اعظم سے کئے گئے بین الاقوامی وعدوں سے ۱۹۴۷ء سے برابر آج تک طاقت کے بل پر انحراف کر تی چلی آ رہی ہے۔ ہم لوگ نئی دلی سے ۴۷ سے لے کر آج تک استصواب رائے کے انعقادکے وعدوں کا ایفاء کا مطا لبہ کر ر ہے ہیں۔ ۱۹۸۹ء،۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء، ۲۰۱۰ء اور رواں انتفاضہ بھارت سے غضب شدہ حق کی یافت کی صدائے باز گشت ہے۔ حریت فکر و عمل کی اس کٹھن راہ میں جموں و کشمیر کے سواد اعظم نے کیا کچھ نچھاور نہیں کیا ہے عیاں راچہ بیاں کے مصداق اظہر من الشمس ہے۔ جہاں ما ضی میں جان و ما ل اور عزت و عصمت کی بے پنا ہ قربانی پیش کی گئی وہی اب کی بار قربا نیو ں کے کھاتہ میں نیا باب رقم کیا گیا ۔ ننھے معصومو ں اور نو جو انو ں نے اب کی بار آنکھو ں کی بینا ئی اس تحریک کے لئے نچھا ور کر دی۔ پدم بھو شن ایوارڈ یافتہ عالمی شہرت کے ما لک ما ہر امراض چشم ڈاکٹر نٹراجن نے سرینگر میں نامہ نگاروں سے کہا کہ ’’ جو نو جوان پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہو ئے ہیںان کی صورتحا ل دنیا کے دیگر زخمیو ں سے مختلف ہے خا ص طور پر شورش زدہ علا قوں میں زخمی ہو نے والوں سے۔ انہوں نے کہا ، میں نے دنیا بھرمیں مر یضو ں کے آپریشن کئے ہیں جن میں شورش زدہ علا قے بھی شا مل ہیں ۔تاہم میں نے زندگی میں پہلی مر تبہ اس تعداد میں آنکھو ں کے ذخمی ہو نے والوں کو دیکھا ۔۔۔ انہو ں نے کہا مر یضو ں کو پیلٹ سے آنکھو ں کی پتلیو ں کے علا وہ آنکھو ں کے دیگر حصوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔(کشمیر عظمیٰ۔۳۰جو لائی ۲۰۱۶) ۔ محبو سین ،مجروحین، پیلٹ زدہ آنکھو ں، اور بینا ئی سے محروم معصومین کے علا وہ آزادی کی اس راہ میں جاں بحق ہو ئے ایک سو کے قریب نو جو انو ں کی روئیداد الم کیا اس حقیقت حا ل کی شاہد عادل نہیں کہ بھارتی حکو مت اور فورسز جمو ں و کشمیر کے با شندوں کو شعوری طور ایک کا لو نی کے محکو م و مقہور با شندے تسلیم کر تی ہے نہ کہ ریاست کے معزز شہری۔ ۔۔ہاں بھارتی اسٹیٹ کے معزز شہری ہر یانہ کے جا ٹ فرقہ سے تعلق رکھنے والے با شندے ہیں جنہو ں نے سال رواں کے ماہ فروری میں ریزرویشن ایجٹیشن کے دوران تیس چا لیس ارب روپے کی جائیداد کا نقصان لیا لیکن ایک بار بھی گو لی یا ٹئیر گیس کا استعما ل نہیں کیا گیا ۔۔۔ہاں معزز شہری بنگلور کے لو گ ہیں جہاں جی پی فنڈ واپسی پر ملا زمین نے پر تشدد مطا ہرون کے دوران بنگلور میسور شا ہراہ کو بلاک کر دیا ، لکھنو کے شہری ہیں جہاں چند دن قبل بی جے پی لکھنو کے صدر نے بی ایس پی لیڈر ما یا وتی کے خلا ف نا شائستہ الفاظ استعما ل کئے تو بی ایس پی حما یتیوں نھے سڑکو ں پر نکل کر ادھم مچا دیا ۔ بی جے پی صدر کا پتلا نذر آتش کیا ، خو ب تو ڑ پھوڑ کی لیکن ہما رے ہاں کے بر عکس نہ ہی ٹیئر گیس چلا ، نہ ہو گولیاں اور نہ ہی گرفتاریان ہو ئیں۔ ہمارے ہاں حزب کما نڈر برہان مظفر کے جا ںبحق ہو نے کے صرف بیس گھنٹو ں میں دو ہزار لو گوں کوگو لیو ں اور چھروں سے زخمی کیا گیا اوربارہ لو گوں کو پہلی ہی قسط میں گو لیوں سے ابدی نیند سلا دیا گیا ۔ (کشمیر عظمیٰ، ۳۰ جو لائی۲۰۱۶)۔ بھارتی ارباب اقتدار سے پو چھا جا سکتا ہے کہ جمو ں و کشمیر کے با شندوں کے خلاف یہ قہر و ظلم اور جبر و زیا دتی کس حقیقت حا ل کا غما ز ہے ؟ بس اسی حقیقت کا نہیں کہ ہم بھارت کی نظر میں عزت و تکریم کے مستحق نہیں بلکہ بے عزتی اور جبر و قہر کے مستحق ! مگرکیوں؟ صرف اس لئے کہ یہ قوم اپنا غصب شدہ حق بھارتی قیادت سے ما نگتے ہیں اور شعور کی پوری بیداری سے ما نگتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے جمو ں و کشمیر کے لو گو ں کے تئیں روا رکھا گئے سلو ک کو اگر بھارتی جمہو ریت کا دوہرا معیار کہلا یا جائے تو بیجا نہیں ہو گا۔رواں عوامی تحریک کے دوران بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کشمیریوں کے ساتھ رشتہ کے حو الہ سے کہا کہ’’ کسمیر کے ساتھ وقتی نہیں جذبا ت کا رشتہ قائم کر نا چا ہتے ہیں ۔(کشمیر عظمیٰ، ۲۵جولائی۲۰۱۶) ۔ راج نا تھ جی جذبا ت کے رشتے کی اساس با ہمی محبت و عزت ہوتی ہے نہ کہ نفرت و بے عزتی جس کا اظہار بھارت۴۷ء سے روا رکھا ہوا ہے۔ جذبات کا رشتہ یہی تقاضا کر تا ہے کہ قوم کا شمیر کی نو جوان نسل کو ہمیشہ کے لئے اند ھا بنا یا جائے ؟ جذ بات کا رشتہ یہی ہے کہ قوم کا شمیر کی کلیو ں کو پھو ٹنے سے پہلے ہی مر جھا یا جائے۔جذبات کا رشتہ کیا اسی کامتقاضی ہے کہ ہماری ابھرتی نسل کو بے دردی سے قتل کیا جائے، بے رحمی سے اندھابنا یا جا ئے ، لوگوں کو کالے قوانین کی بھینٹ چڑھا یا جا ئے ۔ بیرون ریاست کشمیری طلباء کی تنگ طلبی کرکے انکے تعلیمی کیرئیر کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے۔ بستیوں میں فورسز یلغار یںکر کے اہل ِخانہ کا بلاامتیاز فری سٹائل کشتی کی مانند زد کو ب کریں اور املاک اور سمان ِ زیست کو تباہ و برباد کیا جائے ، دینی اور مذہبی فرائض کی ادائیگی پر پابند یا ں عائد کی جائے۔۔۔ کیا ایسا کر کے آپ کشمیریوں کے ساتھ جذبات پر مبنی تعلق اور رشتہ استوار کر رہے ہیں ؟ کیا ا س سے آپ کے اجتماعی ضمیر کی تشفی ہوتی ہے ؟ کیا آپ کے قومی مفاد کی حفاظت اس سے یقینی طور ہو جاتی ہے ؟