مصرہ بیگم بڑی دھوم سے اپنے دونوں بچوں جعفر اور ادفر کو سجا رہی تھی۔ فروری کا آخری دن تھا اور اگلے دن اسکول کھلنے تھے۔ بچے بڑے خوش تھے۔
سرما کی چھٹیوں کے بعد ایک بار پھر اسکول کھل رہے تھے۔
اب کے سرما میں سردی کی شدت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ عام طور پر کشمیر میں دسمبر جنوری میں برف ضرور ہوتی ہے مگر منفی15تک درجہ حرارت کا گرنا معمول کے برعکس تھا۔ اس بار سردیوں میں برف نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ شہر و دیہات میں کئی سارے مکان زمین بوس ہو گئے۔
مگر موسموں کا بدلنا ایک فطری اور لازمی عمل ہے ۔فروری کے دوسرے ہفتے سے ہی موسم کا مزاج بدلنے لگا اور آخری ہفتے تک آتے آتے بہار کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ مصرہ بیگم نے اپنے دونوں بچوں کو ایک دن پہلے ہی نہلایا اور ان کے لیے نئے نئے کپڑے منگوائے ۔ بڑا والا بچہ جعفر آٹھ سال کا تھا جبکہ ادفر چھہ سال کی تھی۔
راجہ بیگم جو کہ اسی محلے میں رہتی تھی شام کو آئی اور مصرہ بیگم سے کہنے لگی
"اجی مصرہ تم تو بڑی سیانی ہو— تو نے تو پورے گھر کو اس طرح صاف کیا ہے کہ لگتا ہے کہ تیرے گھر میں یقیناً بہار آئی ہے"
مصرہ بیگم نے جواب میں سر ہلایا اور اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔
شام ہو رہی تھی اور مصرہ بیگم کام ختم کرکے کچن گارڈن میں بیٹھی تھی۔ دونوں بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے
مصرہ بیگم کے ذہن میں ایک عجیب کشمکش چل رہی تھی
" کیا واقعی بہار آئی ہے—–
نہیں نہیں میں نہیں مانتی—"
وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی زندگی سے تو بہار تبھی رخصت ہوگئی تھی جب اس کا شوہر نذیر احمد اس دنیا سے کوچ کر گیا۔
آج راجہ بیگم نے یہ کہہ کے کہ اس کے گھر میں بہار آئی ہے اس کے اندر بسے درد کو جگا دیا۔
مصرہ بیگم کا شوہر نذیر احمد پچھلے برس ایک ایکسیڈنٹ میں فوت ہو چکا تھا۔ تب سے اب تک مصرہ بیگم کے چہرے پر ایک عجیب اداسی تھی۔ وہ اگرچہ بڑی بہادر اور حالات سے ٹکر لینے والی خاتون تھی مگر شوہر کی جدائی نے کی اسے موم کی طرح ملائم بنایا تھا۔
وہ وقت کے ساتھ ساتھ پگھل رہی تھی۔ اس کے امیدوں کی مالا کٹ گئی تھی اور اس میں صرف دو ٹکڑے باقی رہ گئے تھے۔۔۔ جعفر اور ادفر۔
لوگ بہار کے آنے کا انتظار کر رہے تھے مگر مصرہ بیگم خزاں رسیدہ بہار کا ماتم منا رہی تھی۔ اس کی زندگی کی بہار نذیر احمد گزر چکا تھا ۔خزان کی بھیانک آ ندھیوں نے مصرہ بیگم کی زندگی کو چاروں طرف اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
مصرہ بیگم یہی سوچ رہی تھی اور آنسوؤں کی دھار اس کی آنکھوں سے رواں تھی۔ وہ دل ہی دل میں زندگی سے شکایت کر رہی تھی اور اس درد لاعلاج کی دوا ڈھونڈ رہی تھی۔
باہر لوگ بہار کے آنے کا جشن منا رہے تھے مگر ان نادانوں کو کیا معلوم کہ گاؤں کے شمال میں ایک پرانی بوسیدہ عمارت میں مقیم عورت کی زندگی میں بہار کبھی لوٹ کے نہیں آ سکتی۔
ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں
اوروں کی نظر میں موسم ہو خزاں کا
����
میڈکل آفیسر شوپیان بلاک
موبائل نمبر؛9622645253