دراصل اُس روز میری طبعیت کچھ ٹھیک نہ تھی اس لئے صبح سویرے ہی آفس جانے کی بجائے شفا خانہ جانا پڑا ۔وہاں بہت بھیڑ تھی ۔لمبی لمبی قطاروں میں نہ جانے کتنے لوگ اپنے امراض کا علاج کرانے کے انتظار میں کھڑے تھے۔میں بھی انہی میں سے ایک قطار میں شامل ہونے کی سوچ رہا تھا مگر پھر نہ جانے کیا سوچ کر کچھ دیر بنچ پرہی بیٹھا رہا کہ اچانک اسی جگہ پر ایک بزرگ خاتون اور اس کی بالغ بیٹی بھی آکر بیٹھ گئیں ۔انہیں دیکھ کر مجھے بڑی حیرات ہوئی کیوں کہ یہاں بیٹی نے بزرگ ماں کا ہاتھ نہیں بلکہ ماں ہی نے اپنی جوان بیٹی کا ہاتھ تھاما ہوا تھااور اسے بڑے آرام سے لے جا رہی تھی ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جوان لڑکی کہیں اور گُم تھی۔دیکھنے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے چلتی بھی نہ تھی جیسے اُس کا دل اور دماغ بیکا ر اور بے حِس تھا ۔آخر کار میں نے بزرگ خاتون سے پوچھ ہی لیا ’’کیابات ہے اماں؟آپ کی بیٹی کو کیا تکلیف ہے ؟آپ کی لڑکی جب سے آئی ہوئی ہے خاموش پڑی ہے ۔آپ سے بھی کوئی بات نہیں کرتی‘‘۔میرا یہ کہنا ہی تھا کہ ’’اس بزرگ خاتون کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اور اس نے درد بھری آواز میں مجھ سے صرف اتنا کہا’’بیٹا کاش سبھی بیٹیوں کے نصیب اچھے ہوتے !‘‘یہ کہہ کر انہوں نے اپنی بیٹی کو بنچ سے اٹھایا اور اندر ڈاکٹر کے پاس لے گئی ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ اور پوچھتا اس خاتون کے درد بھرے اور مبہم الفاظ میرے دل میں اس طرح اُتر گئے کہ اس کے بعد میں نے کچھ بھی پوچھنا مناسب نہ سمجھا ۔تھوڑی ہی دیر میں میری باری آگئی اور ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد میں نے سیدھے اپنے گھر کی راہ لی مگر راستے بھر اس بزرگ خاتون کے وہ الفاظ ستاتے رہے جو اُس نے مجھ سے کہے تھے۔نہ جانے کون سی درد ناک کہانی کا وہ کردار تھی ۔معصوم لڑکی جو بُت بنی آج دوسروں کے سہارے چل رہی تھی ۔خیر میں نے اپنا دھیان اس بات سے ہٹا لیا اور پھر سے اپنی زندگی کی الجھنوں میں مصروف ہو گیا ۔
چند روز بعد مجھے پھر سے ڈاکٹر کو دکھانے کی شدید ضرورت محسوس ہوئی اور میں شفا خانہ کی اور چل دیا ۔دیکھتا ہوں ٹھیک اُس بنچ پر وہی ماں بیٹی بیٹھے ہوئے ہیں ۔بیٹی اپنا سر ماں کی گود میں ڈال کر لیٹی ہوئی ہے جیسے گہری نیند اُسے ستا رہی ہواور اُس کی ما ں کی آنکھوں سے بے بسی اور لاچاری کے آثار اس قدر پھوٹ رہے تھے جو دور سے انسان کو محسوس ہورہے تھے ۔نہ جانے مجھے کیوں ان پر بڑا ترس آیا۔اور ایک بار پھر میں نے اس بزرگ خاتون سے اُن کی اس حیران کُن حالت کی وجہ پوچھنا چاہی ۔ابھی میرا سوال مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ فوراََہی بول پڑی ۔اس کے الفاظ اس قدر تیزی سے اس کے منہ سے ادا ہورہے تھے جیسے وہ برسوں سے بولنا چاہ رہی ہواور آج کہیں جا کے اُسے مشکل سے موقع ملا ہو ۔اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا۔’’بیٹا اولاد کی شادی ماں باپ کا سب سے بڑا سپنا ہوتا ہے مگر سب ہی سپنے شرمندہ تعبیر کہاں ہوتے ،کچھ سپنوں کی تعبیریں اُلٹا اثر دکھاتی ہیں ‘‘ ۔ پھر وہ اپنی بے جان سی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی۔’’یہ معصوم کلی آج بے جان اور دیوانی معلوم ہوتی ہے ۔کبھی ہنستی کھیلتی پری ہوا کرتی تھی ۔بیٹا یہ نادیہ ہے میری بیٹی۔ آج سے چند ماہ پہلے اس کی شادی احمد نام کے ایک جواں لڑکے سے ہوئی تھی۔ شروع شروع میںـ‘میں اور اس کے والد اس شادی کے سخت خلاف تھے کیوں کہ یہ شادی میں نادیہ کی مرضی کی تھی۔ دراصل نادیہ اور احمد کچھ ماہ پہلے ایک تقریب میں ملے تھے اور دونوں میں محبت ہوگئی آخر کار دونوں کی شادی ہوگئی اور اب دونوں کی زندگی نے ایک نیا موڑ لے لیا ۔جہاں خوشیوں کی بہاریں آنی تھیں وہاں صرف غموں کی سرد ہواؤں نے ہمیشہ کے لیے ڈیرہ ڈال دیا ۔شادی کے بعد احمد کا مانو رویہ ہی بدل گیا ۔وہ دھیرے دھیرے اپنے رنگ بدلتا چلا گیا ۔وہ نادیہ کو مارتا ،ستاتا اور طرح طرح کے طعنے دے دیتامگر نادیہ کبھی اُس سے کچھ نہ کہتی ۔وہ دھیرے دھیرے ڈپریشن کا شکار ہوتی چلی گئی ۔نادیہ احمد کی محبت میں کچھ اس طرح جکڑ گئی تھی کہ جیسے اس کے پاؤں میں زنیجیریں پڑیں تھیں ۔ایسی زنجیریں جو کھُلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔دراصل کبھی کبھی کچھ زنجیریں انسان کو اس قدر جکڑ لیتی ہیں کہ گویا ان زنجیروں کی کلید ہاتھ میں ہو کر بھی یہ بندہ خود کو آزاد نہیں کر پاتا ہے ۔
پھر اس بزرگ خاتون نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی بیٹی کا چہرہ پکڑ لیا اور بار بار اُسے چومتی رہی لیکن اُس ماں کی اشک باری تھمنے کا نام نہ لیتی ،ہچکیاں بندھ گئیں ،تو اسی میں کہا کہ ’’بیٹا ڈاکٹر صاحب نے ملاحظہ کرنے کے بعد کہا کہ اس کی قوتِ گویائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلب ہو گئی ہے وہ اب بول نہیں پائے گی ۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسوؤں کی قطار بندھ گئی اور میں یہ سوچنے میں لگ گیا کہ کیا کچھ مجبوریاں اور کمزوریاں واقعی ایسی ہوتی ہیں جو انسان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
���
محلہ قاضی حمام بارہ مولہ کشمیر
موبائل نمبر؛9469447331