ڈرامہ
وہ عبادت گزار تھا اور ملنسار تھا مکر پھر بھی فرشتے اُسے جہنم کی طرف دھکیل رہے تھے ۔اور وہ چلائے جا رہا تھا ۔"مجھے چھوڑدو ۔۔مجھے چھوڑدو "۔۔کیا عبادت کا یہی صلہ ہے۔؟ ۔۔۔فرشتوں نے اس کے سامنے ایک بڑا آئینہ کھڑا کیا اور اس میں اس کی زندگی کا ڈرامہ شروع کیا ۔"یہ دیکھو تمہاری عبادت ،ریاضت،کیوں اکارت ہوئی"۔۔ اس کی زندگی کا سین چلنے لگا ۔وہ بول رہا تھا "۔۔۔۔۔ارے ۔۔نکالو یہ ماسک واسک ۔۔۔۔اس سے کچھ نہیں ہوتا ۔یہ سب ڈرامہ ہے اور کچھ نہیں۔۔۔" وہ اپنے بھائی سے کہہ رہا تھا ۔تو بھائی بولا "۔۔۔یہ سب جو مر رہے ہیں ۔۔۔۔کیا یہ سب جھوٹ ہے؟؟"
تو اسلم خان بولا "۔۔ارے بدھو ۔۔یہ سب پتہ نہیں کیا چال ہے ۔۔۔ڈاکٹروں کی باتوں میں نہ آئو۔"۔۔۔۔
اس کے بعد آئینہ ماند پڑ گیا ۔دھندلا، جیسے ڈرامہ ختم ۔۔۔۔
پھر فرشتہ گویا ہوا ۔۔"۔۔وہ دیکھ اسلم خان ۔۔تمہاری ماں اور تمہارے دفتر کا ساتھی دونوں 16 سال پہلے کرونا وبا سے مر گئے تھے۔اور ذمہ دار تم ہو ۔۔ان کی روحوں نے تمہاری شکایت کی ۔"۔۔وہ حیرانگی سے فرشتوں کو دیکھ رہا تھا ۔پھر لرزتے ہونٹوں سے پوچھنے لگا "۔۔۔لیکن اس میں میرا کیا قصور ۔مجھے تو کرو نا نہیں ہوا تھا ۔میں تو دوسری بیماری سے مر گیا تھا ۔"؟
اس کی بات سن کر فرشتہ بولا ۔۔"تجھے کیا خبر ؟اے بے خبر انسان ۔۔تجھے ایک بار نہیں دو بار کرونا ہوا تھا ۔۔تجھے پتا بھی نہیں چلاکیونکہ تمہاری موت اس بیماری سے نہیں لکھی تھی ۔۔۔تم تو ٹھیک ہوئے ۔لیکن طبیبوں کی گزارش پہ عمل پیرا نہیں ہوئے ۔۔اور دوسروں میں بیماری پھیلاتے رہے ۔تم پر قتل کا الزام ہے ۔اب چلو جہنم کا اصلی ڈرامہ دیکھو ۔۔۔"
کہتے ہوئے فرشتے اس کو ہنکاتے ہوئے جہنم کی طرف لے گئے ۔۔اور پھر چلانے کی آواز آئی "۔۔۔۔بچائو بچائو کوئی تو مجھے بچائو "۔۔۔۔۔۔۔
سودا
جس عزت کی اس نے رکھوالی کی تھی آج وہ لٹ گئی تھی۔محض نوکری حاصل کرنے کے لئے اس نے آج اپنے آپ کو بیچ دیا تھا ۔گھر میں چھوٹے بھائی بہن اور بزرگ والدین تھے،جن کو ہر آرام پہنچانے کے لیے اس نے اپنے آپ کو بیچ دیا ۔لیکن اسے اپنے آپ سے گھن آ رہی تھی ۔خودکشی کا خیال بھی آیا مگر پھر گھر والوں کا خیال آیا کہ وہ بیچارے کیا کریں گے ۔دوسرے دن اس نے آفس جوائن کیا ۔باس نے بلایا تو وہ سر جھکا کے حاضر۔۔۔"
باس کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی ۔"جو کچھ بھی ہوا اُسے بھول جاؤ ۔۔اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ۔تم دیکھنا کتنی ترقی ہوگی ۔۔ہاہاہا ۔۔۔آخر میں نے تم کو پا لیا ۔۔کالج میں تم کو پرپوز کیا تھا ۔۔مگر تمہاری ضد ۔۔۔اُف ۔۔لیکن میں نے بھی ہمیشہ پانا سیکھا ہے ۔۔کھونا نہیں ۔۔آج سے تمہارا عہدہ "پرسنل سیکریٹری۔۔۔۔"اور ہاں یاد رکھنا میرے پتی راجیش کو اس بات کی خبر نہ ہو ۔۔۔۔۔۔"
ریتا اسے تنبیہ کر رہی تھی ۔۔۔۔اور دیپک سر جھکا ۔خاموشی سے سب کچھ سن رہا تھا ۔۔۔۔
بیساکھی
راجہ صاحب کا این جی او تھا ۔غریب اور مستحق افراد میں آج بیساکھیاں بانٹنی تھی ۔سارا میڈیا بلایا گیا تھا ۔ماں نے بولا کہ پہلے اپنی کار لے کر راشن گھاٹ پہ جاوٴ ۔آج گھاٹ منشی چاول تقسیم کر رہا ہے ۔"۔۔۔تو راجہ صاحب بولا "۔۔۔۔۔ماں میں بچپن سے آج تک راشن لانے گیا کیا کبھی جو آ ج جاؤں گا ۔۔"یہ کہہ کر وہ کار لے کر روانہ ہوا ۔۔تقریب میں اس نے زور دار تقریر کی ۔۔اور پھر بزرگوں میں شال اور لاٹھیاں تقسیم ہونے لگیں۔۔۔
ادھر تپتی دھوپ میں راشن کی قطار میں کوئی چلّایا ۔۔۔"ارے کوئی اٹھاؤ ۔۔چکرا کے گر گئے ہیں ۔صبح گیارہ بجے سے لائن میں کھڑے ہیں بے چارے ۔۔بیٹوں کے ہوتے ہوئے ہمیشہ خود سودا سلف خریدنے کے لئے بازار کے چکر لگایا کرتے ہیں۔۔۔"
اور پھر راجہ صاحب کو گھر سے فون آیا "اگر کوئی بیساکھی بچ گئی ہو تو گھر لیتے آنا۔۔۔بابا بازار میں گرِ گئے ہیں۔۔ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔۔۔
حسینی کالونی،چھتر گام،موبائل نمبر؛6005513109