خاموشی
وائرس کی گھٹن زدہ اور جان لیوا ہوا سارے شہر میں پھیل چکی تھی۔ گلیوں ، سڑکوں اور بازاروں میں ایسی بھیانک خاموشی چھائی تھی جیسے مردہ گاڑنے کے فوراً بعد لوگ قبرستان سے نکلے ہوں ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وائرس کے اس دیو نے سب کی کایا کلپ کرکے انسانوں کو ذروں میں تبدیل کر دیا ہو۔
"تم کہاں جارہے ہو؟" سلطانہ شوہر کے باہر چلے جانے پر پوچھ رہی تھی ۔
"میں ۔۔ میں کھانے کا کچھ انتظام کروں گا"۔ اشرف اُداس ہوکر گھر کے دروازے سے باہر نکلا ۔
سنسان اور بدبو دار گلی سے نکل کر اس نے بازار کا رخ کیا۔ لیکن وہ خاموشی کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھ کر خوفزدہ ہوا۔ اس نے دیکھا کہ اکثر گھروں پر تالے چڑھے تھے۔
"شاید وائرس کے خوف سے گاوں چلے گئے ہونگے۔" وہ خودکلامی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا ۔
دن بھر سنسان گلیوں کی خاک چھان کر غروب آفتاب کے فوراً بعد ہی وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا۔
سلطانہ نے پُرامید ہوکر دروازہ کھولا مگر بھوک سے اسکی چندھیائی آنکھوں کی آخری لو بھی ماند پڑ گئی اور دونوں دہلیز پر بیٹھ کر اب وائرس کا انتظار کرنے لگے۔
محشر
بہار کی رات، ٹھنڈی ہوا، تاریک کمرہ، کھلی آنکھیں اور ہر سو سناٹے کے بیچ میں نے جب کمرے کی چھت پر نظریں جمائیں ناگہاں ذہن کے کئی درازے کُھل گئے۔ ماضی رفتہ رفتہ میرے آگے ہویدا ہونے لگا۔ پرانی سوغاتیں، پرانے لوگ، وہ چہرے اور ان سے جڑے واقعات نے میرے اندر نشاط و غم کی ایک متعجب اور مذبذب اضطرابی کیفیت پیدا کر دی۔
میں درازوں کو کھولتا اور وقت کی گرد میں آلودہ اور دھندلی تصاویر کو صاف کرتا گیا، مسکراہٹیں پھیلتی گئیں ، آنسو بہتے رہے اور یاداشت تازہ ہوتی رہی۔ ایک محشر بپا ہوا۔ زندگی کے پچھہتر برس کے سرمایہ میں بے ترتیب چہرے ، غیر منظم یادوں کا انبوہ کثیر ایک ساتھ چبوتروں اور دالانوں سے یوں ظاہر ہونے لگا جیسے بانگ اسرافیل سن کر زمین مردے اگل رہی ہو، یوں یکبارگی میں یادوں کا ایک محشر بپا ہوا، آنسو بہتے رہے اور مسکراہٹیں پھیلتی رہیں۔ اسی اضطرابی کیفیت میں خانۂ تاریک کے دوسرے کمرے مسمی دل میں آگ بھڑک اُٹھی ، سینہ جلنے لگا اور اچانک ذہن میں اُبھرتی تصاویر جلنے لگیں ۔چبوترے اور دالان خالی ہوتے گئے اور میں کھلی آنکھوں سے دیکھتا رہا کہ وہ مجسمے اور ان گنت چہرے ہوا میں تحلیل ہورہے تھے۔
فریب
الیکشن ریلی میں شعلہ بیاں تقریر کرنے کے بعد سابق منتری جی آج پانچ سال بعد پھر شہر کی بدبو دار اور تنگ گلی سے گزرنے پر مجبور ہوئے ،وہ بھی پیدل۔ دراصل اس گلی سے گزر کر آگے غریبوں کی ایک بہت بڑی بستی تھی جو صرف الیکشن کے دوران یاد کی جاتی تھی۔ باقی دنوں میں تو یہاں کے لوگ غیرانسانی مخلوق تصور کئے جاتے تھے۔
در در ووٹ مانگتے ہوئے منتری جی اسلم کے دروازے پر پہنچے تو اسلم موقع غنیمت جان کر منتری جی سے اپنی بپتا بیان کرنے لگا اور منتری جی بادل ناخواستہ سنتے رہے۔
"صاحب ! راشن نہیں ہے، منشی جی دھتکار دیتے ہیں، بیوی بچے سب بھوکے ہیں"
اسلم اپنی بپتا سنا ہی رہا تھا کہ منتری جی کے چمچوں کو چبھن ہوئی، فوراً غریب کو خاموش کرانے میں ایک جُٹ ہوگئے ۔
"آخر یہ چھوٹا سا مسئلہ منتری جی کو بتانے کی کیا ضرورت تھی" ایک نے دوسرے کے کان میں کہا۔
لیکن بیچارے اسلم کو کہاں سوجھ بوجھ تھی کہ اتنے بڑے آدمی کے آگے اتنے چھوٹےمسئلے نہیں اُٹھائے جاتے، بھلے ہی وہ کسی کے دو وقت کے کھانے سے متعلق ہوں۔
منتری جی نے جب اسلم کی بات سنی تو انہیں غصہ آیا اور انہوں نے جھٹ سے جیب سے فون نکالا اور منشی کو خوب ڈانٹ پلانے لگے۔ اسلم دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا۔
منتری جی منشی کو ابھی ڈانٹ ہی رہے تھے کہ یکایک انکے کان سے لگا فون بجنے لگا ۔ سارے لوگ حیرت زدہ ہوگئے اور منتری جی کے چہرے پر کھسیانی ہنسی کا ظہور ہوا۔
ہندوارہ،موبائل نمبر؛7780912382