چار بجنے ہی والے تھے،میں آفس سے واپس نکلنے کی تیاری میں لگ گیا۔جوں ہی میں مین گیٹ کے پاس پہنچا بارش اس قدر تیزی سے برسنے لگی کہ میں گبھرا کر سیدھے ہی آفس کے اندر پھر سے داخل ہوا اور کھڑکی سے آسمان کی ا ور دیکھنے لگا۔کئی منٹ گزرنے کے بعد آسمان سے اس قدر اولے گرنے لگے کہ لگ رہا تھا کہ صاف قیامت کی نشانی ہے۔بارش اور اولے بند ہونے کا نا م ہی نہیں لے رہے تھے ۔میں پریشان ہوا کہ اب کیسے گھر پہنچوں ۔بڑی دیر کے بعد بارش بند ہوگئی اور میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔ژالہ باری اور بارش نے کچھ ایسا طوفان مچایا تھا کہ غریبوں کی جھونپڑیوں کی چھتیں چھلنی ہوگئی تھیںاور پانی کمروں کے اندر ٹپک رہا تھا اورشوو غوغا کا منظر تھا ۔تھوڑی دیر بعد جب میں گھر کی اور بڑ ھتا گیا تو ہا ہا کار مچ گئی تھی۔جو لوگ اُوپری منزلوں میں رہائش پذیر تھے اُن کے پورے سامان کا خدا ہی حافظ یعنی وہ سب ناقابلِ استعمال بن چکا تھا ۔فرش،اشیائے خوردنی ،ملبوسات پانی میں اس طرح بھیگ گئے تھے جیسے کہ دھونے کے لیے دھوبی نے پانی میں بھگودیاہو۔ ا س ہلچل اور غیر متوقع صورت حال میں ایک شخص کو باہر کواڑ پر مغموم حالت میں دھیرے دھیرے آنکھوں سے آنسوں بہاتے دیکھا مجھ سے رہا نہ گیا ،نزدیک جا کر پوچھ لیا؛
’’بابا کیا بات ہے ،ایسے کیوں آنسوؤں بہا رہے ہو ،بارش سے زیادہ نقصان ہو گیا ہے کیا؟‘‘
’’اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولاکہ بارش نے کیا بلکہ بدقسمتی نے میرا سب کچھ لُٹا دیا ہے،اُسی کی یاد آرہی ہے‘‘
میرے بار بار اصرار پر اُس نے اپنی بپتا کچھ یوں سنائی:
’’بیٹا میری شادی کو بیس سال گزر گئے ،شادی کے دو سال بعد ہمارے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی ،میں اور میری بیوی ہنسی خوشی اپنی بیٹی کے ساتھ دن گزار رہے تھے ۔اُسے پڑھایا لکھایا ،کھیلتے کھیلتے پتہ ہی نہیں چلا کہ ہماری بیٹی کب اٹھارہ سال کی ہوئی اور میٹرک میں پہنچ گئی ۔میرے دل میں بیٹی کے لیے بہت ارمان تھے۔ میری بیٹی اسکول سے آکر اکثر مجھ سے پوچھاکرتی:
’’کہ پاپا مرنے کے بعد کیا ہوجاتاہے ‘‘
میں اُسے ڈانٹتا اور اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دینے کے لیے کہتا تھااور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا تھا کہ :
’’آپ کے امتحان آنے والے ہیں ‘‘
مقررہ تاریخ پر امتحان شروع ہوا بیٹی کا اور وہ امتحان دیتی رہی۔امتحان دینے کے دو ماہ بعد امتحان کے نتائج کا جب اعلان ہوا تو ہماری بد نصیبی کام آئی کہ ہماری بیٹی ناکام رہی ۔ناکامی کی خبر سنتے ہی وہ چیخ اٹھی اور بے ہوش ہوگئی ۔ہمسائے یہ چیخ و پکار سُن کر ہمارے گھر آئے اور سبب پوچھنے لگے ۔بہرِ صورت میری بیٹی کو ہسپتال لے جایا گیا ۔ڈاکٹروں نے بڑی دلچسپی اور عُجلت سے ملاحظہ کیا مگر بڑے ڈاکٹر صاحب نم دیدہ آنکھوں سے کہنے لگے :
’’ہمیں افسوس ہے ہم اس معصوم کو بچا نہ سکے‘‘
’’میں روتے روتے اس سوچ میں پڑ گیا کہ میت کو کس منہ سے گھر لے جاؤں ،یہ سوچتے سوچتے بُرا حال ہوگیا‘‘ ۔
’’آخر میری بیوی کیسے یہ صدمہ برداشت کر سکتی ۔‘‘
جوں ہی ایمبولینس سے میری معصوم بیٹی کی لاش اُتاری گئی توایک کہرام مچ گیا ۔میری بیوی پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑ ا۔وہ دھڑام سے زمین پر گر گئی ۔لوگ اُسے سنبھالنے لگے مگر افسوس کہ وہ جنگِ حیات ہار چکی تھی۔پوری بستی ہمارے صحن میں جمع تھی ۔دو دو تابوت میرے گھر سے اکٹھے اُٹھے اور میں اکیلا رہ گیا ۔یہ اکیلا پن اور تنہائی اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔لگتا ہے کہ قدرت بھی مجھ سے بے زار ہوگئی ہے۔ اب دنیا میں رہ کر کرنا کیا ہے ۔بس موت کی تمنا ہے ۔اس کی یہ دل دہلا دینے والی کہانی سنی تو کہا:
’’بابا کاش انسان اپنی مرضی سے اس دہر میں آتا ،اپنی مرضی سے یہاں سے چلا جاتا ،یہ انسان کے بس کی بات نہیں ،انسان تو یہاں اداکاروں کی مانند ہے ،انسان کی کہانی کوئی اور لکھتا ہے ،انسان بس اپنا رول ادا کر کے اس اسٹیج سے چلا جاتا ہے ‘‘۔اُس کی تھوڑی سی ڈھارس بندھا کر میں گھر کی اور روانہ ہوا۔گھر پہنچ کر تھکان سی محسوس ہوئی اور یہ تھکان ایک جسمانی عارضہ میں بدل گئی ۔ہفتہ بھر بسترے پر ہی پڑا رہا ۔اگلی سوموار کو جب دفتر کی اور چلنے لگا تو اسی بابا کے مکان کے صحن میں لوگوں کا بڑا مجموعہ دیکھا ۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بابا موصوف کی کل رات موت ہوگئی تھی ۔میں اندر چلا گیا ۔کفن دفن کا بندوبست کیا جارہا تھا ۔میں نے بابا کا مردہ چہرہ دیکھنے کی خواہش کر لی ۔چہرہ دیکھ کر لگ رہا تھا کہ بابا مطمئن ہیں اور چہرے کے آثار بتا رہے تھے کہ وہ اپنے بچھڑے ہوئے عیال سے ملاقی ہونے کی خوشی میں سفر پر روانہ ہو رہے تھے ۔تدفین کے بعد میں آفس کی اور روانہ ہوااور راستے بھر میں بابا کی باتیں مجھے یاد آرہی تھیں۔۔۔۔جو اُس نے کئی روزپہلے مجھ سے کہی تھیں۔۔۔۔۔
���
محلہ قاضی حمام بارہمولہ ،موبائل نمبر؛9469447331