ننھا اسماعیل بھوک کی شدت سے رورہا تھا بادامی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح نرم اور ملائم رخسار پر ٹپک رہے تھے۔ بار بار موٹے موٹے آنسوئوں کے قطروں کواپنے نازک بازئوں سے صاف کررہا تھا ۔ روتا بلکتا ننھا اسماعیل کبھی اپنا انگھوٹھا منہ میں ڈال کے چوسنے لگتا تو کبھی اُسے نکال کر واویلا کرنے لگتا۔ویہ دلخراش منظر اسکے والدین کے سینے کو چھلنی کررہا تھا اور اندر ہی اندر دم بخود کررہا تھا۔چھوٹی سی جُگی میں رہنے والے سلیم اور عذرا کو مشکل سے ہی دو وقت کی روٹی میسر آتی تھی۔ اوپر سے سماج اور حالات کے تھپیڑوں نے انہیں غربت اور افلاس کی خندق میں دھکیل دیا تھا۔بچے کی آہ و فغاں اور نقاہت اپنی انتہا کو پہنچی تو سلیم کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور والد کی شفقت سمندر کی لہروں کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگی۔
پھٹی پرانی ماسک، جس پرچھوٹے بڑے دو تین سراخ تھے۔ سلیم نے اپنے منہ پر لگائی اور بازار کی طرف ننگے پائوں نکلا۔ سنساں بازارمیں دھوپ سے تپ رہی تھی سڑک پر آدم زاد کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہیںتھا، چیتے کے مثل چلتے ہوئے ایک سیاہ وردی پوش افسر موٹا ڈنڈا تاڑکے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ڈنڈے کو جیسے اپنے ہاتھ سے رقص کروارہا تھا۔ ایک ہاتھ سلیم کے سینے پر اور دوسرے ہاتھ سے ڈنڈا سلیم کے منہ کے قریب لاکر گرجدار لہجے میں۔۔۔۔۔۔
کہاں جانا ہے تجھے، معلوم نہیں کہ پورے ملک میں کئی ہفتوں سے لاک ڈائون چل رہا ہے۔ اپنے گھروں میں قبر کیوں نہیں بناتے ہوا اپنی۔ افسر نے دہاڑتے ہوئے کہا۔سلیم آنکھیں نیچی گردن ٹیڑھی کر کے ہاتھ جوڑتے ہوئے ۔۔۔ بچہ بھوکا ہے، بھوک کی وجہ سے نڈھال ہوگیا ہے،اس کی ماں کا دودھ بھی اب خشک ہوگیا ہے،اگر کھانے کو کچھ نہ ملا تو بچہ مرجائے گا، اس لئے تھوڑا سا دودھ لانے کے واسطے دکان پر جارہا ہوں سرکار۔افسر غصے سے آگ بگولہ ہوکے۔۔۔ پیٹ پر پتھر باندھو یا بھرو اس میں آگ۔ دفاں ہو جا یہاں سے ورنہ ہڈیوں کا سرمہ بنادوں گا۔ یہ کہتے ہوئے سلیم کو دھکا دیا تو نحیف سلیم دور جا کے گرپڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
روتے، سسکتے اور شرمسار ہوکے سلیم ٹوٹے پائوں گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر کتوں نے بھی اُس پر بھونک کر اسے بھگانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ راستے میں لوگ کھڑکیوں سے جھانک کر سلیم کی المناک حالت کو دیکھ کر سہمے جارہے تھے۔خود کو دنیا کا بدنصیب باپ سمجھتے ہوئے سلیم واپس جارہا تھا ۔جونہی وہ اپنی جگی کے قریب پہنچا تو اسماعیل کے رونے کی آواز، جس میں شدت،درد اورتڑپ تھی، سلیم کے دل کو پاش پاش کرنے لگی۔ اندر داخل ہوتے سلیم کے دونوں ہاتھوں کی طرف نگاہ ڈالتے ہوئے عذرا ۔۔۔۔کیا کچھ انتظام ہوا ۔۔۔سلیم کی اشکبارآنکھیں ناامیدی کی داستان بیان کررہی تھیں۔ ماسک دور پھینک کر جگی کے بیچوں بیچ والے کھمبے کے ساتھ ٹیک لگا کے اپنی قسمت پر رورنے لگا،ہائے پانچ اگست سے تین دن بھی لگاتار چولہا نہ جل سکا۔۔۔۔
کمر کے بل لیٹے اسماعیل کو اٹھایا اور اپنے سینے سے لگایا۔ اس کے ملائم رخساروں سے آنسوئوں کے خشک قطرے اوراس کے منہ کے ارد گرد مسلسل رونے کی وجہ سے جمی جھاگ کی سفید سی تہیں صاف کرنے لگا۔ اپنی انگلیاں اسماعیل کے بالوں میں ڈال دیں جیسے کنگھی کرنے لگا۔ بار بار اسماعیل کو بوسے دینے لگا،اس کے چہرے سے اپنا چہرہ لگا یا تھا،اس کے منہ کے قریب اپنا چہرہ لے جاتا جیسے سونگھ رہا ہو۔اسماعیل نے بھی اپنا چہرہ اپنے والد کے سینے پر رکھا اور سسکیاں لینے لگا،دونوں باپ بیٹے محبت اورشفقت کی دہلیز پار کر کے حیات جاوداں ہوگئے،جنت میں سیر کرنے لگے،آسمانوں میں رقص کرنے لگے، کچھ منٹ کے لئے چاروں اطراف سکینت چھاگئی، جیسے ہوا رک سی گئی ہو۔ اچانک اسماعیل کی سسکیاں آنی بند ہوگئیں، تو عذرا ممتا کی پتلی بن کر ۔۔۔۔۔۔ اسماعیل کے سینے پر ہاتھ سے جھٹکے دیتے ہوئے۔۔۔اسماعیل ۔۔۔ اسماعیل۔۔۔۔ اسماعیل نے اپنے دونوں بے جان بازئوںکو درا زکیا ، گردن دوسری طرف ڈال دی اور ایک موٹا سا آخری آنسو کا قطرہ اس کی آنکھ سے ٹپکا۔۔۔۔۔ہائے میرا ننھااسماعیل۔۔۔۔میرا معصوم بچہ
سلیم۔۔سلیم۔۔۔سلیم۔۔۔۔۔۔ زور دار چینخ مارتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ ہائے میں لٹ گئی ،میں برباد ہوگئی دونوں مردہ جسموں کو جھنجھوڑتے ہوئے۔۔۔۔اسماعیل۔۔۔ سلیم ۔۔۔۔۔ میں تنہا ۔۔۔ وہ بے ہوش ہو کر گرپڑی اور پوری جگی میں خاموشی پھیل جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
���
پاہو پلوامہ،موبائل نمبر؛9149620962