Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

نابینا

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 27, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
ایک دن کھیلتے کھیلتے میں نے دوستوں سے ایک گھنٹے تک آنکھیں بند رکھنے کی شرط لگائی ۔۔۔میرے دوست بھی میرے ارد گرد گھڑی کی ٹک ٹک گننے لگے اور مجھ پر ایسے نظر جما کر بیٹھے جیسے کوئی دشمن حملہ کرنے والا ہو یا جیسے کسی شیر کو ہرن پر جھپٹ پڑنا ہو ۔  میں نے شرط جیتنے کی پوری کوشش کی لیکن آدھے گھنٹے کے بعد میں نے ہار مان لی اور آنکھیں کھول دیں ۔ دوستوں نے خوب مذاق اڑایا لیکن میں ایک لمحے کے لئے جیسے اندھا ہوگیا‌اور محسوس کرنے لگا‌کہ بصارت کے بغیردنیاکیسی دکھائی دے رہی ہے۔ یقیناً اس لمحے میں رنگ، روشنی، پھول اور منظر سب گم ہوگیے تھے۔ اس لمحے صرف اندھیرے کی کیفیت درپیش تھی البتہ  آوازیں زیادہ واضح سنائی دیتی تھیں۔۔۔ قدموں کی چاپ  شناخت کا ذریعہ تھی۔ دوستوں کے لہجے کی تبدیلی زیادہ محسوس ہورہی تھی۔ پنکھے کے چلنے کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ گلی میں ہونے والا شور زیادہ واضح ہو گیا تھا۔ لیکن نظر کچھ نہیں آتا تھا۔ ۔۔۔میں سوچنے لگا کہ ۔۔۔۔یہ وہ زندگی ہے جس سے ہر نابینا شخص ہر لمحہ نبرد آزما ہوتا ہے۔ یہی کچھ ان کے سامنے ہوتا ہے۔ یہی اندھیرا ان کی کل کائنات ہوتی ہے۔ یہی آوازیں ان کے منظر ہوتے ہیں۔
  جب سے میں نے ہوش سنبھالا میں نے اس کو اسی حالت میں دیکھا ۔جلیل اُسکا نام تھا اور دو بھائی ہو نےکے باوجود وہ اکیلا رہتا تھا ۔وہ بچپن سے ہی نابینا تھا اور اکثر چھوٹی سی جھونپڑی نما مکان کی ایک کھڑکی پر بیٹھا ہوا اپنے  خیالوں میں گم رہتا تھا۔اس کے لئے دن اور رات میں کوئی فرق نہیں تھا ۔اس نے سورج ،چاند اور تاروں کے بارے میں سنا تھا لیکن انہیں دیکھا نہیں تھا ۔اس کی نظر میں کائینات اتنی محدود تھی جتنا اس کا آنگن ۔دنیا کے رنگ اس کے لئے بے معنی تھے ۔ہاں وہ کبھی کبھی خوشبو سونگ لیتا تھا وہ بھی تب جب کبھی کوئی بچہ از راہ ترحم گلاب کا پھول ہاتھ میں تھما دیتا۔۔اس کا گھر ہمارے گھر کے پاس ہی تھا اوروہ شام کے وقت  ہمارے گھر دروازے سے نہیں بلکہ کھڑی سے اندر آتا تھا ۔میرےگھر والے بھی اس کے لئے کھڑکی کھلی رکھتے تھے اور خوشی خوشی اُسے اندر آنے کی اجازت دیتے تھے ۔۔میں حیران ہوتا تھا کہ اس گپ اندھیرے میں وہ بغیر‌کسی ٹھوکر کےوہ ندی پار کیسے کرتا تھا ۔۔۔۔جب مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے ماں سے پوچھا۔۔۔ماں یہ دیکھتا کیسے ہے ؟۔۔۔ماں نے کہا ۔۔۔۔یہ من کی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔۔۔من کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔یہ میں نے پہلی بار سنا اور پورے یقین کے ساتھ مان بھی لیا۔۔۔چونکہ وہ مجھے جانتا تھا اس لئے میں اکثر اس کے ساتھ باتیں کرتا تھا ۔۔ایک دن میں نے پوچھا۔۔جلیل کاک کیا سوچ رہا ہے ۔۔۔وہ مسکرایا اور کہنے لگا ۔۔۔تو ابھی بچہ ہے اس لئے نہیں سمجھو گے۔۔۔۔پھر بھی بول دیتا ہوں کیونکہ میرا کوئی دوست نہیں ہے ۔۔   ۔اس لئے تم کو دوست مان کر بول دیتاہوں ۔۔۔۔خدا نے مجھے بینائی نہیں دی لیکن لوگوں کو بھی بصارت کہاں دی؟نہیں! خدا نے بصارت دی لیکن یہ لوگ جان بوجھ کر ان دیکھا کرتے ہیں ۔۔۔۔کسی کو میری پرواہ نہیں ۔۔۔۔
جب تک  میں اور میرا بڑا بھائی اکٹھے رہتے تھے زندگی میں غم تو تھے لیکن کم تھے ۔۔۔میرے بھائی نے مجھے کھانا پکانا کیا سکھایا میں اس کا نوکر ہی بن گیا۔۔۔۔۔لیکن مجھے کوئی غم نہیں  کیونکہ میری جانب توجہ دینے والا وہی تو تھا ۔۔۔۔ مجھے آج بھی یاد ہے ۔۔۔وہ کہتا تھا ۔۔۔۔جلیل نابینا تو نہیں بلکہ یہ دنیا ہے۔ ہمارا چھوٹا بھائی ہے ۔۔۔۔جو بڑا تاجر بنتے ہی الگ بیٹھا اور ہمیں خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔تم گھبرانا مت ۔۔میں ہوں نا ! ۔۔۔تجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔۔۔۔میں  تجھے اپنی آنکھوں سے دنیا کی رنگینیاں دکھاؤں گا ۔۔۔۔
افسوس ! وہ بھی بدل گیا ۔ اس نے شادی کی اور بیوی کے کہنے پر مجھے میرے اندھے پن کے حوالے کر کے الگ بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔اس کے وہ وعدے اور ارادے چاپلوسی کی رٹ میں بہہ گئے ۔۔۔۔۔اب میں خدا کے رحم وکرم پر ہوں ۔۔۔۔
 خدا رحم کرے میرے پڑوسیوں پر بھی جو پیٹھ پیچھے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن آگے کوئی نہیں آتا ۔۔۔یہ لوگ جب مجھے ندی کے کنارے چلتے دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں ۔۔۔۔۔بےچارہ جلیل ۔۔۔؟کتنی مصیبت جھیلتا  ہے۔۔۔یہ لوگ سامنے آجاتے ہیں لیکن جب میں ٹھوکر کھا کر گر جاتا ہوں مگر ٹھوکر لگنے سے بچانے کے لئے نہیں اور نہ ہی زندگی کی ٹھوکروں کو دور کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔۔۔۔میری ناخیزی کا غم صرف میرے والدین کو تھا ۔۔۔۔
اتنے میں اذان ہوئی ۔۔۔جلیل کاک کھڑکی سے اٹھ کر دیوار کے سہارے کچن میں پہنچا ۔ادھر دروازے سے بڑے بھائی نے آواز دی ۔۔۔۔۔۔جلیل آج کونسا سالن بنایا ہے ؟ تھوڑا مجھے بھی بھیج دو ۔۔۔۔جلیل مسکرایا ۔۔۔۔۔۔اور مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔۔بڑے بھائی کو آج بھی میرا بنایا سالن پسند ہے ۔۔۔۔کاش میرا ساتھ بھی ہوتا ۔۔۔۔اتنے میں بھائی نے پھر سے آواز دی ۔۔۔۔۔۔لائے کیا ۔۔۔۔جلیل نے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔ٹھہرو لا رہا ہوں ۔۔۔جلیل نے دھیرے دھیرے چل کر بھائی کو تھوڑا سالن دے دیا ۔۔۔وہ چلا گیا ۔۔۔۔
جلیل ایک مرتبہ پھر کہنے لگا ۔۔۔۔پتہ نہیں ،میرے برتن کیسے ہیں ؟ صاف ہیں بھی یا نہیں ؟ میرے چاولوں میں کیڑے تو نہیں ہیں ۔۔۔لوگ کہتے ہیں کہ ان میں کنکریاں بھی ہوتی ہیں ۔۔۔۔کاش کوئی میرے چاول بھی صاف کرتا۔۔۔ ۔۔۔جلیل کی ان باتوں نے مجھے مغموم کردیا ۔۔۔۔۔میں کچھ کہہ نہیں پایا ۔۔۔۔۔اس کے برتن صاف تو تھے لیکن اتنے صاف نہیں جتنے ہمارے گھروں میں ہوتے ہیں ۔۔۔پھر بھی وہ خوش تھا ۔۔اس نے کچھ مرغیاں پالی تھیں ۔۔۔جو ہر دن پھر اس کے ارد گرد گھومتی پھرتی تھیں ۔۔۔وہ بھی ان کو پہچان لیتا تھا ۔۔۔۔اس کی مرغیاں کبھی دوسرے گھر میں انڈا نہیں دیتیں ۔۔۔۔چند دانے کھا کر وفا کرتی تھیں ۔۔۔میرا من کی آنکھوں پر پورا وشواس تھا ۔۔۔۔۔مرغیوں کا جلیل کے ارد گرد گھومنا اس بات کا ثبوت تھا کہ جانور انسانوں سے زیادہ وفادار ہیں ۔
  کتنے ظالم ہیں یہ دنیا والے ۔۔۔۔جس پر بیتے وہی جانے ۔۔۔جلیل کاک کے بھائیوں نے زمین کا بٹوارہ کیا۔ جو زمین زیادہ اچھی تھی وہ اپنے نام کر لی اور جو کم زرخیز اور کم قیمتی تھی وہ جلیل کاک کے نام ۔جلیل کاک کو کیا معلوم کہ کھیت کیسے ہوتے ہیں اور باغات کیسے ۔اس کے لئے یہی کافی تھا کہ اس کو سال بھر کے لئے چاول ملتے تھے اور چند روپے گھاس کی قیمت ۔میں نے اس کو بتا ہی دیا ۔۔۔۔جلیل چاچا ۔۔۔تیرے بھائیوں نے زمین کو تقسیم کیا ۔۔۔۔جو کم زرخیز اور ناقص زمین ہے وہ تیرے لئے اور باغ کے جس حصے پر کم درخت ہیں وہ تیرے لئے رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔وہ مسکرایا اور کہنے لگا المیہ یہ نہیں ہے کہ  مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ میری اس معذوری کے سبب معاشرے کا رویہ  کس قدر مختلف  ہے۔ یہ سماج ایسے میرا مذاق اُڑاتا ہے۔ میری تضحیک کرتا ہے۔ میرا تمسخر اڑاتا ہے یا پھر صرف ہمدردی اور تأ سف کا اظہار۔
زبان کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ ان کوجب کسی کی توہین کرنی ہوتی ہے تو اسے ”اندھا“ کہتے ہیں، کسی کا مذاق اڑانا ہوتا ہے اسے ”کانا“ کہتے ہیں، تمسخر اُڑانا ہوتا ہے تو اسے ”بھینگا“ کہتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس معذوری میں وہ نابنیا شخص مکمل بے قصور ہے۔‌‌۔۔۔۔نابینا میں نہیں یہ لوگ ہیں ۔۔
میری زمین کو کون دیکھے گا ۔۔۔۔جب میری صحت کی پرواہ ہی نہیں ہے کسی کو ۔۔۔یہ لوگ میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔پھر یہ لوگ زمین بھی  بانٹیں گے  اور فصلیں بھی اُگائیں گے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔مجھے بس پیار کے دو بول چاہیں ۔۔۔۔درد کے وقت سہلانے والا چاہیے ۔۔۔جو نہیں ہے ۔۔۔۔یہ زمین تو یہیں رہے گی ۔۔۔۔۔لیکن کسی کا احسان یاد رہتا ہے اور وہ باقی بھی رہ جاتا ہے ۔۔۔۔یہ کہتے کہتے وہ رونے لگا ۔۔۔ادھر میری ماں نے مجھے کھانا کھانے کے لئے بلایا ۔۔۔۔میں جلدی جلدی گھر پہنچا اور ماں سے پوچھا ۔۔۔ماں کیا ہم جلیل کاک کو گھر میں نہیں رکھ سکتے ؟ وہ بیچارہ بہت دکھی ہے ۔۔۔
ماں نے کہا ۔۔۔بیٹا ۔۔ایسا ممکن نہیں ہے ۔۔۔کیونکہ اس کے بھائی شور مچائیں گے۔۔۔۔ان‌ کو لگے گا کہ ہم اس کی زمین ہڑپ لیں گے ۔۔۔۔تمہارے ابو نے اس کو کئی بار کھانا‌‌ کھلایا لیکن اس پر بھی یہ لوگ ناراض ہوگئے ۔۔۔اور ہم نے وہ نیکی کا کام بند کر دیا ۔۔۔۔۔یہ نہ خود نیکی کا کام‌کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو نیکی کا موقعہ دیتے ہیں  ۔سچ میں اندھا یہ نہیں اس کے بھائی  اور رشتے دار ہیں ۔لیکن تُو اس کا کوئی بھی کام ہو خوشی سے کرلینا ۔۔۔۔
میں زیادہ نہیں سمجھا لیکن اتنا سمجھ گیا کہ نابینا ہونے کا مطلب آنکھوں میں بصارت ہونا نہیں ہے بلکہ ناخیز انسانوں کے درد سے منہ موڑنا ہے ۔۔۔
���
قصبہ کھُل کولگام،موبائل نمبر؛ 9906598163
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پیر بابا بڈھن علی شاہ کاسالانہ عرس :صوفی خانقاہیں ہم آہنگی اور امید کے مراکز ہیں: داراخشاں اندرابی
تازہ ترین
ملک میں انگریزی بولنے والے جلد ہی شرمندہ ہوں گے، ایسا معاشرہ بننا زیادہ دور نہیں: امیت شاہ
برصغیر
مسائل کا حل میدان جنگ میں نہیں ، بات چیت اور سفارت کاری آگے بڑھنے کا واحد راستہ :وزیر اعظم مودی
برصغیر
ٹنل کے آرپار گرمی کی شدید لہر،سرینگر میں  35.2ڈگری سیلشس کے ساتھ دہائیو ں کا ریکارڈ ترین گرم دن ریکارڈ
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?