کچھ یادیں انسان کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوتی ہیںکہ وقت گزر نے کے باوجود بھی ان میں کوئی کمی نہیں آتی۔وہ ہمیشہ انسان کے دل و دماغ کے ساتھ لگی رہتی ہیں۔محلہ گنج کی سڑک کے کنارے،جہاں ہر تہوار کے موقع پر بہت بھیڑ رہتی تھی،کے کنارےپر سلیم نے دوپہر کو ایک گردسے آلود تصویر اٹھائی۔وہ اس تصویر کوصاف کر کے غور سے دیکھنے لگا اوراسے سینے سے لگا کر زور زور سے رونے لگا۔ اس کی حالت دیکھ کر سڑک پر چلنے والوں کی آمدورفت ایک دم رک گئی۔اسکی آنکھوں سے گرتے آنسوں تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔لوگوں کی نظروں میں سلیم ایک پاگل اور بے دماغ لڑکا ہے لیکن آج اس کے آنسوں سے یہ صدا نکلتی ہے کہ اس کے دل میں کسی کی یادیں موجود ہیں۔رو رو کر اس نے اپنی حالت نڈھال کر دی۔ بھیڑ موجود ہی تھی لیکن حلیمہ اس سے بالکل بے خبر تھی کیونکہ وہ ابھی کھیت سے گھر واپس آرہی تھی۔جوں ہی حلیمہ کی سماعت سے یہ خبر ٹکرائی کہ اس کا بھائی سلیم رورہاہے وہ جلدی جلدی آئی اور آتے ہی سلیم سے پوچھا۔
کیاہوا؟
تم کیوں رورہے ہو؟
پہلے سوال پر سلیم نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب حلیمہ نے دوسری بار پوچھا تو سلیم نے اپنے سینے لگائی ہوئی تصویر کی طرف اشارہ کردیا۔حلیمہ نے جب اپنے بھائی کی بھیگی ہوئی آنکھوں اور اس تصویر کو دیکھا تو اس کے منھ سے صرف ایک لفظ نکلا "ماں" اور غش کھاگئی۔ایک طرف حلیمہ بے ہوش پڑی دوسری طرف نوجوان سلیم کے ہاتھ میں وہ تصویرجو حلیمہ اور سلیم کی ماں سلطانہ کی تصویر ہےجو سلیم کی جوانی میں ہی اسے چھوڑ کر چل بسی…….اور سلیم ہنوز اس کے انتظار میں ہے …..
��
نوگام سمبل سوناواری بانڈی پورہ،موبائل نمبر؛ 7889617356