Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

واپسی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 18, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
7 Min Read
SHARE
آج بھی آفس کی اور سویرے ہی نکلنا پڑا ۔روز کی طرح آج بھی مرحوم خواجہ صاحب کی کوٹھی سے میراگُذر ہوا۔ویران پڑی اس کوٹھی کو دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں ۔میں نے قدم تیزی سے آگے بڑھائے اور اپنے کام کی اور روانہ ہوگیا ۔
خواجہ صاحب کا شمار بستی کے سب سے امیر ترین اشخاص میں ہوتا تھا ۔شان و شوکت میں کوئی بھی ان کے پا سنگ نہ تھا۔اس بات کا خواجہ صاحب کو بڑا ہی غرور تھا ۔کسی کو اپنے برابر نہ سمجھتے ۔اُن کی باتوں میں اُن کی اکڑ صاف جھلکتی تھی۔ میں بھی راستے سے گذر کراکثر انہیں سلام کر تا تو وہ بڑے ہی مغرور انہ انداز میں دھیمے لہجے میں ہی سلام کا جواب دیا کرتے ۔اُن کی اکڑا ور غرور کی وجہ سے بستی میں بھی انہیں پسند نہیں کیا جاتا تھا ۔ہر کوئی اُن سے اندر ہی اندر سے نفرت کرتا تھا۔مگر سماج کے بناوٹی اصولوں کے آگے سبھی مجبور تھے۔خواجہ صاحب کے پاس یوں تو دولت کی کوئی کمی نہ تھی مگر پھر بھی وہ اپنے پاس پڑوسیو ں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مسائل پر جھگڑتے رہتے ،ساری بستی پر اُن کا ایک الگ ہی رُعب جما ہوا تھا ۔مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے کہ اخبار ہاتھ میں لیے وہ اکثر اپنے گھر کے صحن میں گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے،پھر اپنے گھر کی چاروں اور نظر دوڑاتے اور پھر من ہی من میں اپنی امیری پر فخر کیا کرتے۔اسی حال میں سال گزرتے گئے اور خواجہ صاحب امیر سے امیر ترین بنتے گئے۔وہ لمحہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گردش کرتا ہے اور میں بڑی دیر تک گہری سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ جب ایک روز معمول کے مطابق میں آفس ہی جا رہاتھا مگر اُس لمحے کا منظر کچھ اور ہی تھا ۔صحن میں خواجہ صاحب موجود نہ تھے بلکہ صحن میں ایک بڑی بھیڑ تھی ۔میں گھبرا سا گیا مگر ہمت جھٹا کر اندر چلا گیا ۔دیکھتا ہوں کہ گھر کے صحن میں جس جگہ خواجہ صاحب اکثر اپنی امیری کی فخریہ نمائش کیا کرتے تھے آج اُس جگہ اُن کا مردہ جسم مٹی کی طرح ڈھیر ہو کر پڑا ہوا تھا ۔سامنے بیٹھے ایک شخص سے اُن کی موت کا سبب پوچھا !
’’بھائی جان یہ سب کیسے اور کب ہوا ؟ــخواجہ صاحب توا چھے بھلے اورچنگے تھے پھر یہ سب اچانک کیسے‘‘؟
انہوں نے حیرت بھری نگاہوں سے میری اور دیکھا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھ سے کہنے لگا؛
’’آج صبح میں یہاں معمول کے مطابق خواجہ صاحب کو اخبار دینے آیا تھا میں کئی منٹ تک دروازہ کھکھٹاتارہا لیکن معمول کے مطابق کوئی بھی باہر نہ آیا۔ جب میںنے دروازہ کھلا دیکھ کر بھی کسی کو باہر آتے نہ دیکھا تو میں اندر چلا گیا ،تو دیکھا کہ خواجہ صاحب رحمتِ حق ہوگئے ہیں اور ان کے ایک دو نوکر ان کے پاس بیٹھے بے یارو مدد گار رو رہے ہیں ابھی تک ان کے رشتہ دار بھی نہیں آئے تھے اور تر پاس پڑوس والوں کو بھی خبر نہ تھی ۔یہ کہتے ہوئے اس اخبار والے کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے ،مجھے بھی خواجہ صاحب کی اس قدر اچانک موت سے رنج ہوا ۔میں جوں ہی  اس کمرے سے باہر نکلنے لگا تو دیکھتا ہوں کہ کئی رشتہ دار جوق در جوق اندر داخل ہو رہے ہیں۔کفن دفن کے ساتھ ہی میں نکلنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ خواجہ صاحب کے چند رشتہ دار بنگلے کے عقب میں بڑے بڑے پکوان بنوانے کی تیاریاں کر رہے تھے ۔میں تھوڑی دیر کھڑے کھڑے سن رہا تھا۔یہ لوگ طرح طرح کے پکوان ،بنانے کے مشورے کر رہے تھے،کسی کو نمک کم مقدار میں چاہیے تھا تو کسی کو زیادہ مقدارمیں ،کوئی اپنی ایک بیماری تو کوئی دوسری بیماری کا بہانہ بنارہا تھا۔ بہر حال میں عجلت سے آفس چلا گیا واپسی پر خواجہ صاحب کے بنگلے کے پاس ٹھہرااور مناسب سمجھا کہ تعزیت پرسی کے  لئے اندر چلا جاؤں۔دائیں بائیں دیکھا کہ سبھی رشتہ دار بیٹھےلذیز پکوانوں کا انتظار کر رہے تھے۔چند عورتیں البتہ ایک الگ کمرے میں ادھر اُدھر کی باتوں میں مصروف تھیں ۔ایسا لگا کہ خواجہ صاحب جیسے دنیا میں کبھی موجود ہی نہ تھے اورنہ کسی کو ان کی یاد آرہی تھی ۔یہ دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا۔یہ سارا منظر مجھ سے دیکھا  نہ گیا۔گھر آکر میں سیدھے اپنے کمرے میں چلا گیا۔کپڑے بدل کر گھر والوں سے چائے کا مطالبہ کیا کیوں کہ سر بوجھل محسوس ہو رہا تھا ۔سوچنے لگا کہ واقعی یہ دنیا کتنی بے مروت ہے اور زندگی کا انجام کیا ہوتاہے ۔چاہے کوئی فقیر ہو یا بادشاہ ،یہ کسی کی وفا دار نہیں۔زمانے کی رفتار خواجہ صاحب کے چلے جانے سے قطعی تھم نہ گئی بلکہ دنیا ویسی ہی رواں دواں ہے اور اس بے وفا دنیا کو کسی کے مرنے جینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس روز میں ایک بات اچھی طرح سمجھ گیا کہ ’’بھلے ہی دنیا میں سب لوگوں کے جینے کے طریقے الگ الگ کیوں نہ ہوں ،کوئی امیر ہے تو کوئی غریب ،کسی کے پاس کھانے کو ڈھیر سارا ہے تو کسی کو ٹھیک سے دو وقت کی روٹی بھی نہیں مگر ہم سب کی واپسی کا طریقہ ایک ہی ہے ۔۔۔وہی دوگز کفن،وہی مٹی کا دفن‘‘۔
اب اکثر جب میں کسی کے مرنے کے فوراََ بعد طرح طرح کے لذیز پکوان بنتے دیکھتا ہوں تو میرے خیالوں پر جوں بھی نہیں رینگتی کیوں کہ اس دنیا  نے خواجہ صاحب جیسے مغرور و متکبر اور جا ہ حشم والے شخص کی بھی وفا نہ کی ۔یہاں کتنے فرعون ،ہامان ،قارون اور شداد آئے اور چلے گئے بس کیا رہا اُن کے اچھے بُرے کام اور نام۔اب یہ بات مجھ پر اچھی طرح آشکارا ہو گئی کہ ’’یہ دنیا ہے صاحب! کسی ایک کے جانے سے ویران نہیں ہوا کرتی۔‘‘ 
���
محلہ قاضی حمام بارہمولہ کشمیر،موبائل نمبر؛9469447331
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پیر بابا بڈھن علی شاہ کاسالانہ عرس :صوفی خانقاہیں ہم آہنگی اور امید کے مراکز ہیں: داراخشاں اندرابی
تازہ ترین
ملک میں انگریزی بولنے والے جلد ہی شرمندہ ہوں گے، ایسا معاشرہ بننا زیادہ دور نہیں: امیت شاہ
برصغیر
مسائل کا حل میدان جنگ میں نہیں ، بات چیت اور سفارت کاری آگے بڑھنے کا واحد راستہ :وزیر اعظم مودی
برصغیر
ٹنل کے آرپار گرمی کی شدید لہر،سرینگر میں  35.2ڈگری سیلشس کے ساتھ دہائیو ں کا ریکارڈ ترین گرم دن ریکارڈ
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?