یتیمی۔۔۔ کیا چیزہے؟ ـــیہ کوئی بات ہے یا کچھ اور ہے۔ سمجھ میںنہیں آتا کیا ہے؟ میں انہی باتوں میں محو تھی کہ اچانک سعدیہ میرے کمرے میں ہڑ بڑ اتے ہوئے داخل ہوئی۔میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو مجھے لگا کہ وہ من ہی من میں باتیں کررہی ہے یا شاید اس کے ذہن میں کچھ اور چل رہا ہے۔
فاطمہ جلدی آئو، دیکھو تو کون آیا ہے ؟اس روز سعدیہ کے کچھ رشتہ دار آئے تھے۔ان سب کو دیکھ کر میں حیران ہوگئی۔یہ سب لوگ آج یہاں کیا کر رہے ہیں؟خدا جانے کیا بات ہے۔ اسی دوران احباب وعقارب میں سے کسی نے مجھے بلایا،آؤبیٹا یہاں بیٹھو۔اس مجمع میں سب لوگ اُداس تھے۔میںیہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئی کہ آخرماجراکیاہے؟ میںنے اپنے اباّ کی طرف دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسوؤں کی دھار لگ گئی ۔یہ ماحول دیکھ کر سعدیہ کا دل بھی بے چین ہو گیا۔کیا ہوا اباّ ؟آپ کیوںرو رہے ہیں؟بیمار ہوں۔میں نے تم لوگوں کے لیے کیا کیا سوچا تھا،شاید اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہے ۔میں ابھی یہ باتیں کر ہی رہی تھی کہ اباّ نے کہا مجھے ہسپتال لے جاؤ۔میں سوچ میں پڑ گئی کہ اللہ اباّ کے اوپر رحم کرے۔ اسی دوران میں کھڑکی سے جھانکی تو دیکھا کہ کچھ خواتین آپس میں سرگوشیاںکر رہی تھیں اور کہتی تھیں کہ کیا تم نے سنا ہے؟ ان کے بارے میں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ و ہ اب بچ نہیں پائینگے ، دو عورتیں آپس میں کہہ رہی تھیں کہ ہاں! میں نے بھی سنا ہے کہ اس کے بچے یتیم ہو جائیں گے کیوں کہ وہ بہت بیمار ہے۔ یہ سب باتیں میں سن رہی تھی۔میرے دل میں خیال آیا کہ یتیمی کیا ہوتی ہے؟میں اپنے والد سے بہت پیار کرتی تھی۔ میرے والد میرے لیے انمول تحفہ ہیں۔میں اپنے والدین کی تیسری اولاد تھی۔میں اپنے ابا ّکے جانے کے بعد چُپ چاپ سی رہنے لگی۔اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ اباّکہا چلے گئے۔اسی اثنا میں میرے کمرے میںنانی آئیں۔میں نے نانی سے پوچھا میرے اباّ کو کیا ہوا ہے وہ کب گھر آئیں گے۔؟نانی نے میری طرف مسکراتے ہوئے کہا ،بہت جلدی بیٹا۔
اس کے بعد اچانک گھر میںاماں داخل ہوئیں تو، میں نے دوڑ لگا کر کہا اما ںاباّ نہیں آئے ۔بیٹا ابھی وہ یہاں نہیں آسکتے۔تمہارے اباّبیمارہیں۔میںنے زور زور سے ا ن سے کہا مجھے اپنے اباّکی بہت یاد آتی ہے، مجھے بھی ان کے پاس لے چلو ۔کچھ دیر کے بعداما ںنے کہااچھا چلو ۔
یہ کون سی جگہ ہے ؟یہ ہسپتال ہے بیٹا ۔ میرے من میں سوالوں کی بوچھاڑ ہوئی۔ میں نے اماں سے کہا یہ ہسپتال کون سی چیز ہے۔ کیا میرے ابا ّیہیںہیں ،ہاں بیٹا۔ میںنے اپنے اباّکو دور سے ہی دیکھا اور پہچانا اور ان کے گلے ملی اور مجھے اس دن کی ساری خوشیاں مل گئیں۔اگلے روزمیری نانی ہسپتال آئیں اور مجھے اپنے ساتھ لے گئیں۔
ٖپھر میں نے کچھ عورتوں کو اپنے گھر کے باہر باتیں کرتے ہوئے دیکھا ــ۔ہاں ہاں وہ یتیم ہوگئے ۔اب کوئی سہارا نہیں ہے ان بچوں کا۔اللہ رحم کرے۔ میںا پنی کھڑکی سے یہ سب باتیں سن رہی تھی۔میں نے اس کے بعد نانی سے پوچھا نانی یہ یتیمی کیا ہوتی ہے؟بہت دنوں سے میرے ذہن میں یہ بات ہے۔ تم
نے کہا ںسے سنا ،نانی نے کہا۔نانی میں نے یہ بہت بار سنا ہے ۔ اسی اثنا میں میرے ما موں آئے جو بہت
پریشان تھے۔دروازہ کھولو اورجلدی چلو ہمیں ہسپتال جانا ہے۔ماموں کی یہ باتیں مجھے بہت عجیب لگیں۔
جب ہم ہسپتال پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ابا کی روح پرواز کر چکی ہے۔ ما موں میرے اباّکو کیا ہوا ہے ؟یہ آنکھیںکیوں نہیں کھول رہے ہیں۔بیٹا تمہارے ابا ّاب کبھی آنکھیں نہیں کھولیںگے ۔ یہ سن کر میںپھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔میرے سبھی رشتہ دار اور بھائی بہن مجھے دلاسا دیتے رہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا ۔کچھ عرصہ بعد میں اپنے اباّ کے خیالوں میں ہی گم تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟کیا کوئی چیزجو انسان کو مل جائے اس کے بعداگر وہ چھن جائے تو انسان کو کتنی تکلیف ہوتی ہے یہ وہی جانتا ہے۔یہی میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔میں ڈپریشن میں چلی گئی اسی دوران عید آئی لیکن میرے لیے یہ عید عید نہیں تھی۔ میرے لیے تو میری عیدمیرے اباّ تھے جب وہ نہیں رہے تو میری عید کیسی ؟اتنا سننا تھا کہ میری ماں کی آنکھوں میں آنسوں آگیے اور میری بھی ۔اس دوران کسی بھی رشتہ دار نے ہماری خبر نہیں لی کہ گھر میں کچھ ہے کھانے کے لیے یا نہیں۔اللہ کے سوا کوئی اپنا نہیں ہوتا،یہ کہتے ہوئے میری اماںکھانے کے لیے برتن لائی۔اماںجب ابا ّتھے تو عید پر کتنے پکوان بنتے تھے لیکن آج ہمارے گھر میںکچھ بھی نہیں ہے تو آپ برتن کیوں لے آئیں۔
بیٹا اگر کوئی پوچھے کھانا کھا لیا تو کہنا ہاں۔ برتن کی آواز سن کر لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہ کھانا کھا رہیں ہیں ۔ کچھ دیر بعداماں نے بستر بچھایا لیکن مجھے سکون ہی نہیں تھا ۔مجھے نیند ہی نہیں آرہی تھی تواماںنے کہاآسمان کی طرف دیکھوخود نیند آجائے گی۔ اماں ابھی باتیں ہی کر رہی تھیں کہ بھوک کے مارے میرے پیٹ میں درد ہونے لگا۔ اماں نے پوچھا تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ؟اپنا درد چھپانے کے لیے میں نے اماں سے کہا کہ اباّ کی یاد آرہی ہے۔پھرمیں آسمان کی طرف دیکھ کرتاروں کو دیکھتی رہی۔ اگر مجھے اللہ مل جاتا تو میں پوچھتی کہ میرا کیا قصور ہے ؟آج مجھے یہ سمجھ آیا کہ یتیمی کیا ہوتی ہے اور رشتہ دار او ردوسرے لوگ کیا سلوک کرتے ہیں۔
���
بارہ مولہ کشمیر،ریسرچ اسکالر شعبہ اردوبھگونت یونی ورسٹی آف اجمیر راجستھان