"ارے یار تم کہاں ہو!؟"
" کورونا میں ۔۔۔۔"
"لو یہاں بھی کورونا، یعنی کہ ہر جگہ کورونا ۔ ہر کسی کی زباں پر ہی نہیں بلکہ دل ودماغ میں کورونا۔فی الوقت سب سے زیادہ بولے جانے والا لفظ ہی نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے والا لفظ بھی کورونا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ کھانا کورونا پینا کورو نا اٹھنا کورونا جاگنا کورونا خواب کورونا خیال کورونا بیوی کورونا محبوبہ کورونا غزل کورونا نظم کورونا افسانے کہانیاں لطائف کورونا انشائیہ کورونا حتیٰ کہ شادی کورونا جنازہ کورونا
یہ کورونا آخر اتنے دنوں تک پردئہ غیب میں کیونکر رہا ؟ میری سمجھ سے ہی بعید نہیں بلکہ عالم انسانیت کی سمجھ سے بھی پرے ہے-
عذاب الہی اچانک ہی ظہور میں آتا ہے-"
"عذاب الہی نہیں آپ لوگ خواہ مخواہ خدا پر الزام لگارہے ہیں -"
تمہارادل ایمان سے خالی ہوچکا ہے ، تم سے اچھا موسیٰ کے عہد کا فرعون تھا، عذاب الٰہی دیکھ کر اللہ پر ایمان لے آیا تھا "
بجا فرما یا حضور نے !اس زمانے میں گر فرعون تھا تو موسیٰ بھی تھے، اس عہد میں صرف فرعون ہی فرعون ہیں موسیٰ کوئی نہیں ۔
فعل بد خود می کند الزام بہ دہد خدا را (ترمیم کے لیے معذرت) فرعون نے کووڈ 19 وائرس تجربہ گاہ میں تیار کیا اور اسے جانے انجانے فضاؤں میں اچھال دیا "
کیوں؟"
"کیوں کہ اسے وحشت ہو چکی تھی بھیڑ سے۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا میں کچھ دن کے لیے سناٹوں کا راج رہے تاکہ کچھ سکوں نصیب ہو۔ جہاں جاؤوہاں بھیڑ ،اژدہام ،جم غفیر۔ کوفت ہو تی تھی اسے ،گُھٹن محسوس ہوتی تھی دنیا کے شور و غوغا اور انسانی ہجوم سے کیسے آزادی دلائی جائے ۔وہ سکون کا متلاشی تھا، کوئی ایسی جگہ اسےنصیب نہ ہوئی کہ وہ پل دو پل سکون سے گزار سکے۔
مجنوں اور گوتم بدھ کا عہد تو تھا نہیں کہ جنگل یا بیاباں میں نکل پڑتا۔ جنگل میں ہجوم دیکھ کر ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
دشت کو جارہے ہو سوچ لو کیسا لگے گا
سب ادھر ہی جارہے ہیں دشت میں میلہ لگے لگا
تو یہ میلے جیسی صورت حال ہر جگہ برقرار تھی بھیڑ کا یہ عالم کہ شہر خموشاں میں بھی ہر وقت چہل پہل اورجشن کا سماں۔
یہ منظر دیکھ کر میں بھی اکثر سوچا کرتی یہ دنیا کب تھمے گی؟؟ کبھی تو رک جاتی بے تحاشہ کہاں بھاگی جارہی ہے۔ لمحہ بھر سانس لینے کو رک جاتی۔
کبھی سوچتی گر دنیا ٹھہر نہیں سکتی کیوں کہ چلنے کی عادی ہوچکی ہے تو کاش پیچھے کی طرف چل پڑتی واقعی ہجوم بیزار فرعون نے کووڈ19 فضاؤں میں اچھال کر "لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو !"شاعر کے خیال کی پیروی کی-
سو دیکھیں !ہم کیسے منٹوں میں ازکار رفتہ نسل کی بود و باش دریافت کررہے ہیں۔ تمام سواری ترک کی اور پیدل چل پڑے ۔گیس چولہے کا ایندھن ختم ہونے کی صورت میں یو ٹیوب چینل پر پچھلی صدی کا چولہا اور اس کے بنا نے کے طریقہ کار ڈھونڈ رہے ہیں –
اپنے خاندان کے ساتھ گپ شپ ہی نہیں کررہے ہیں ایک دوسرے کا خیال حد سے سوا کررہے ہیں ۔۔ایک چھینک آنے پر الحمداللہ کہنے کے بجائے، کو رونا 'کے آثار ہیں کہتے پھر رہے ہیں ۔تلسی، نیم، ادرک کے آب جوش ہی نہیں تیارکررہے ہیں بلکہ نہ جانے کیا کیا الم غلم جبرا‘‘ خود بھی کھا رہے ہیں اور گھر کے تمام افراد کو کھلا رہے ہیں غرض کہ ایک مرض کی ہزار دوا کرہے ہیں ساتھ کھڑکی دروازے بھی مقفل کیے جارہے ہیں تاکہ چھینک کی آواز باہر کوئی سن نہ پائے اور ہمارا سماجی مقاطعہ نہ کردیا جائے ۔۔بچوں کو اب فرصت ملی ہے کہ وہ دا دی نانی کے ہمراہ بیٹھ کر لوک کہانیاں سنیں ، دادیوں نانیوں کا چہرہ گلنار ہورہا ہے ۔۔۔گرچہ ساری کہانیاں ان کی یادداشت کے خانوں سے محو ہوچکی ہیں ۔۔۔پھر بھی کچھ اپنی اور کچھ پرائی جوڑ توڑ کر سنانے کی کوشش میں مگن ہیں۔
اور بھی بہت کچھ ہورہا ہے مثلاً بیوٹی پارلر بند ہونے کی صورت میں دیسی حسن افزائش طریقۂ کار اپنائے جارہے ہیں۔ ہلدی، چندن اور عرق گلاب کے مرکب گھر میں تیار کئے جارہے ہیں ۔۔ چڑیلوں کی مانند ہیئر اسٹائل کے نام پر نہ جانے کن کن پرندوں کا گھونسلہ سر پر اٹھائے پھرنے والی خواتین و دوشیزائیں ۔۔ موباف وغیرہ کے فوائد سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کررہی ہیں بلکہ اسے جدید طرز دے کر استعمال کے قابل بنارہی ہیں۔
اپنے اپنے مذاہب کی طرف بھی رجحان مزید بڑھا ہے۔ سب اپنی مذہبی کتب میں اس بلا ء 'کی پیشن گوئیاں تلاش کرہے ہیں اور ساتھ وظائف وغیرہ کے ساتھ 'گئو متر 'سے اپنی پیاس مٹارہے ہیں اور گوبر تھراپی ' کررہے ہیں۔ اس قدر بد اعتقادی دیکھ کر 'تھا لی اور 'تالی ' پیٹنے کا فرمان صادر کردیا جاتاہے۔ پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتےان آوازوں کی گڑگڑاہٹ سے ہمارا شہر ہمارا ملک بے حال ہوگیا اور ترقی یافتہ ممالک کے باشندے یہ نظارہ دیکھ کر خوب محظوظ ہوئے اور پھر ہماری جہالت پر متأسف بھی ۔۔ ۔
اس کے سوا بھی بہت کچھ ہورہا ہے جس کی تفصیلات ضروری نہیں سمجھتی
کیوں کہ اس سے زیادہ اہم یہ جاننا ہے کہ کو رونا ' ختم ہوتے ہی اس کا ہم قافیہ’’ مورونا‘‘‘ 'وجود میں لایا جائےگا جو کووڈ 19 سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہوگا۔ لاک ڈاون تک کی مہلت نہ مل سکے گی۔ خدشہ ہے کہ تمام کمزور غریب انسان نہیں غریب ممالک بھی تباہ و برباد نہیں ہوں گے بلکہ صفحہ ہستی سے مٹادیئے جائیں گے۔
"مجھے پتا دو یار۔۔؟؟"
کس ملک کی کس لبارٹری میں کون سا فرعون اس وائریس کو تیار کررہاہے ؟؟ تاکہ میں اسے ہلاک کر ڈالوں ۔ ایٹم بم یا نیوکلیر بم سے صفایا کردوں "
"یہ بم یہ میزائیل سب بیکار و ناکارہ ہیں پیارے! یہ وائرس تمام ہتھیاروں سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔
جانتے ہو اب ہم اس عہد میں داخل ہوچکے ہیں ۔۔
کہ اب ہم وائریس ، وائریس کھیلنے والے ہیں ۔۔
ہتھیاروں کی جنگ سے ہم باہر آچکے ہیں ۔۔۔۔۔
اس کھیل کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کھیل کے مؤجد کا نام اب تک پردہ اخفا میں ہے –
شاید اس دنیا کا یہ واحد کھیل ہے جس نے متاثر زدہ کو حیران و پریشان تو کیا ہی ہے بعد وفات تک متجسس بنا کے رکھ دیا -اللہ اللہ خیر صلا !
���
نئی دہلی ،[email protected]