فریحا ؔ نظریں جھکائے گنگ سی بیٹھی تھی وہ کچھ بول نہیں پا رہی تھی وہ منوں بوجھ تلے خود کو دبی دبی محسوس کر رہی تھی۔آنکھوں سے آنسوں بہنے لگتے تو انھیں اندر ہی اندر پی جاتی اور ان آنسوئوں میں اپنے ان گنت غم چھپانے کی کوشش کرتی۔ابرارؔ کے بار بار چھونے پر بھی وہ کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتی۔اُس سے شادی کرنے کا فیصلہ اس نے خود ہی لیا تھاکچھ دیر کی چپی کے بعدبلآخر ابرارؔ ؔبول اُٹھا۔
’’مجھے دیر ہورہی ہے۔میرے دوست میرا انتظار کر رہے ہونگے۔‘‘
فریحا نے نظریں اُٹھا کر کہا۔
’’اتنی جلدی تم بدل جائو گے یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔اب تم حد سے گزر رہے ہو۔تمہاری ہر فرمایش پوری کرناممکن نہیں ہے۔‘‘
ابرارؔ عجلت بھرے لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔
’’ابھی تم لوگوں نے دیا ہی کیا ہے۔‘‘
فریحا معصومیت سے بولی ۔
’’میں نے وہ ساری چیزیں بھجوا دی ہیں جو ایک متوسط گھرانے کے لوگ بھیجتے ہیں۔
اس پر ابرارؔ نے تند لہجے میں کہا۔
’’دس پونڈ۔۔ ایک چین ۔۔۔۔ کچھ انگوٹھیاں۔میرے گھر والے کیا سوچ رہے ہونگے کہ کن کنگالوں سے سابقہ پڑا ہے۔‘‘
’’ابرارؔ اتنے کٹھور نہ بنوجو ہم سے بن پڑے گا وہ بھجوا دیں گے۔‘‘
ابرارؔ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر طنزیہ انداز میں کہا ۔
’’میری جان۔۔۔۔۔۔۔ کب بھجوا دو گی۔‘‘
وہ ہاتھ چھڑاتی ہوئی بولی۔
’’وقت وقت پر ہی گُل کھلتے ہیں ۔تھوڑا صبر کرو۔‘‘
’’صبر کروں۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔ ہر ایک چیز شادی ہونے سے پہلے میرے گھر میں پہنچ جانی چاہیے۔‘‘
یہ سنتے ہی فریحا ؔاچانک سے اُٹھ کھڑی ہوکرجانے لگی تو ابرار ؔ نے چلاتے ہوئے کہا۔
’’کہاں جارہی ہو۔ابھی تو بات باقی ہے۔‘‘
دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو کھجلاتے ہوئے ۔۔۔۔ٖ!!!
یہ دیکھ کر فریحا ؔ نے پرس میں ہاتھ ڈال کرکچھ نوٹ نکال کر کہا۔
’’ابرارؔ مجھے اب اور تنگ مت کرنا۔یہ چالیس ہزار روپے ہیں۔پھر کوئی تفاضا مت کرنا۔میں باربار کہاں سے لائوں۔ ‘‘
وہ گھورتے ہوئے بولا۔
’’میںتفاضا کروں گا اور بار بار کروں گا۔تمہارے ابا کو جو لاکھوں روپے جی پی فنڈ کے نکلے ہیں۔‘‘
’’یہ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔اب پیسے مجھ سے زیادہ اہم ہوگئے ہیںاور یہ ہماری محبت کے آڑے آنے لگے۔‘‘
’’او۔۔۔۔فریحا come on, be practical یہ دیوداس بننے کا وقت نہیں ہے جتنا تم ابا کے گھر سے اینٹھ سکتی ہو۔ اینٹھ لو۔‘‘
’’اینٹھ لوں۔یہ ممکن نہیں ہے ۔‘‘
’’پھر تم گھاٹے میں رہو گی۔‘‘
یہ کہہ کر وہؔ اپنے دوستوں سے ملنے نکلا۔
فریحا گھر کی طرف جاتے ہوئے سوچتی رہی۔
’’میں کب تک ابرارؔ کی فرمائشیں پوری کرتی رہوں گی ۔‘‘
وہ ایک ایسے بھنور میں دھنستی چلی جارہی تھی جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔وہ ابرارؔ کو چھوڑ نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ اُسے بے انتہا محبت کرتی تھی۔ ادھر وہ گھر والوں کو بھی تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ دو رویہ پسی جا رہی تھی۔
کسینو میں ابرار کے دوست بے تابی سے اُس کا انتظار کر رہے تھے۔ نئے نئے پلان بنا رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ بڑا ہاتھ مار کے آ ئے گا۔ اس کے وہاں پہنچتے ہی سب دوستوں کے بشرے گلاب کی طرح کھل اُٹھے۔ اس سے گلے ملتے رہے اور کئی سوال پوچھ بیٹھے۔
’’آج بڑی دیر کر دی؟ بھابی جی ٹھیک ہے؟ روپے ملے ؟
ابرارؔ نے جواب دینے کے بعددوستوں سے پوچھا ۔
’’آج کیا پلان بنا رکھا ہے۔‘‘
ایک دوست بولا۔
’’اس کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ بھابی جی نے کس قدر فیاضی سے نوازا ہوگا۔‘‘
وہ جلدی سے بول اُٹھا ۔’’چالیس ہزار روپے دیئے ہیں‘‘
’’ پھر تو خوب مزے کریں گے۔‘‘
اور سب دوست کھا پی کر ڈانس کرنے میں مصروف ہوئے۔ ڈانس کے دوران ہی ابرار ؔ نے فون کر کے فریحاسے کہا۔
’’جان۔۔۔۔ کاش تم اس دقت میرے ساتھ ہوتی بہت مزہ آجاتا۔ ‘‘
میوزک سن کر فریحا سمجھ گئی کہ وہ کسینو میں ہے ۔اُس نے آئو دیکھا نہ تائو۔وہ آنکھ جھپکنے میں وہاں پہنچ گئی ۔ابرار ؔ کی نظریں جوں ہی اس پر پڑ گئیںوہ دوڑ کر اس کو لینے گیا ۔
’’خوش آمدید ۔‘‘
اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈانس پارٹی کی طرف لے جانے لگا۔اُس نے زور سے اپنا ہاتھ کھینچ کر تند لہجے میں کہا۔
’’ابرارؔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ ابا سنیں گے تو آسمان سر پر اُٹھا لیں گے۔چلو یہاں سے۔‘‘
لاکھ سمجھا نے پر بھی وہ چلنے کے لئے تیار نہیں ہوا ۔فریحا نامراد واپس لوٹتے ہوئے سوچتی رہی۔
’’کاش میں نے اپنی مرضی گھر والوں پر تھوپی نہ ہوتی تو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔‘‘
فریحا دونوں رشتوں کے پلڑوں میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتی رہی۔ اُس نے وہ چیزیں ابرارؔ کے گھر بھجوا دیں جن کی فرمائش اس نے کی تھی۔اپنے ابا کو بھی ہنستے کھیلتے ہوئے اس کے لئے آمادہ کرواتی رہی۔اس کے سوا اُس کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔فریحا کو اندر ہی اندر یہ وسوسہ دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ وہ بہت جلد شادی کے بندھن میں بندھ جاناچاہتی تھی تاکہ ابرارؔ کی فر مایشوں کا سلسلہ تھم جائے۔
کئی مہینے گزر گئے اب شادی کی تاریخ بھی قریب پہنچ چکی تھی کہ ایک دن ابرار ؔ اپنے دوستوں کے ساتھ گپیں مارتے ہوئے کہہ اُٹھا۔
’’سنو ۔۔۔دوستو ۔۔۔ میں نے تمہا ری بھابی کو ایک اور فہرست بھیج دی ہے۔ جس میں ایک خوب صورت مکان تعمیر کروانے کی فرمایش کی گئی ہے ۔‘‘
اسی اثنا میں ایک دوست کو فون آیا ۔فون اُٹھاتے ہی اُ س کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔اُس نے سومو ڈرائیور کو آواز دیکر بلایااور سب دوست بیٹھ گئے۔ابرارؔ بولا
’’ارے یار کہاں لے جارہے ہو۔‘‘
وہ خاموش رہا یہاں تک کہ وہ فریحا کے گھر پہنچ گئے۔آنگن میں لوگوں کا ہجوم تھا ۔عورتیں رو رہی تھیںچا رپائی پر فریحا کی لاش دیکھ کرابرارؔ چیخ اُٹھا ۔تھوڑا آگے بڑھ کراُس کی نظریں فریحا کی بند مٹھی پر پڑ گئیں۔ اُ س نے اپنے آپ کو لاش پر گرا کر وہ کاغذ نکال لیا جو اُس نے فریحا کی بند مٹھی میں دیکھا تھا ۔پھر روتے بلکتے ہوئے سائیڈ میں جاکر دیکھا ۔کاغذ پر لکھا تھا ۔
’’میرے سرتاج ۔میں نے یہ فرمایش بھی پوری کروانے کی بہت کوشش کی ہےمگر میں کامیاب نہ ہوئی ۔ابا کی بے بسی دیکھ کر مجھے اب اپنی زندگی بے معنی سی لگنے لگی ہے ۔‘‘
یہ پڑھ کر ابرارؔ کی آنکھوں سے بسیار آنسوں بہنے لگے۔وہ لاش کو دیکھتے ہوئے سوچ رہاتھا۔
’’فریحا نے میری ہر ایک فر مایش پوری کر دی ۔ سونا ۔۔ فرنیچر ۔۔ برتن ۔۔کار ۔۔ یہاں تک کہ اپنی جان بھی دیدی۔اور میں ۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔ہاں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔پھر بھی مرد ہوں۔۔۔۔۔۔۔!!!
���
دلنہ بارہمولہ
موبائل نمبر؛9906484847