امجد اپنی ماں کی فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی تو نہیں برت رہا تھا لیکن پھر بھی گلشن کا معمول تھا کہ وہ اپنے بیٹے امجد کی شکایت ہر کسی کے سامنے کرتی رہتی تھی۔۔۔۔۔
فاطمہ کو امجد سے زیادہ رشتے داروں کے بچے پیارے تھے ۔ جب بھی اسکے بھتیجے ، بھانجے اور نندوں کے بچے گلشن کے گھر آتے تھے وہ بڑے پیار سے انکا استقبال کرتی تھی اور ان سے ہمدردی کے ساتھ پیش آتی تھی ۔۔۔۔
امجد شرمیلی طبیعت کا لڑکا تھا اور زیادہ باتیں کرنے کا عادی بھی نہ تھا ۔ ماں باپ سے کبھی کبھار ہی بڑی گفتگو کرتا تھا اور بات کرتے وقت اکثر شرم محسوس کرتا تھا ۔ اس کے برعکس گلشن کے بھتیجے ، بھانجے اور باقی رشتہ داروں کے بچے گلشن اور اسکے خاوند سے بلاجھجک کے بات کرتے تھے ۔ وہ گلشن اور اسکے خاوند سے ہر دن فون پر بات چیت کرتے تھے اور ان سے خیریت دریافت کرتے تھے ۔ اسی لئے دونوں میاں بیوی کو امجد سے زیادہ رشتے داروں کے بچے پیارے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
نماز مغرب کا وقت تھا ۔۔۔۔۔ گلشن باتھروم میں وضو بنا رہی تھی کہ اچانک اسکا پیر پھسل گیا اور نیچے گر کر وہ بے ہوش ہوگئی ۔ جب ہسپتال پہنچائی گئی تو ایڈمٹ ہونا پڑا ۔ ڈاکٹروں نے دو پوانٹ خون فوراً جمع کرنے کے لئے کہا تاکہ اسکا آپریشن جلد کیا جاسکے۔۔۔۔۔۔۔
گلشن کے شوہر قادر میر نے ہر کسی کا فون ملایا جو اکثر ان کا حال چال بڑی شائستگی سے پوچھا کرتے تھے اور باتوں سے دونوں میاں بیوی کے دل بھی انہوں نے جیتے تھے۔ لیکن آج ایک نے بھی فون اٹھانا گوارا نہ کیا کیونکہ انکو معلوم تھا کہ گلشن کو اس وقت خون کی اشد ضرورت ہے۔۔۔۔۔
امجد کو ہسپتال کے ایک ملازم، جو اسکے ساتھ پڑھتا تھا، نے فون پر ماں کے حادثے کے بارے میں با خبر کیا۔ امجد جلد ہی ہسپتال پہنچا اور خون دینے کیلئے ایکدم تیار ہو گیا اور اسکی ماں کا آپریشن کیا گیا۔ جونہی گلشن ہوش میں آئی تو قادر میر نے اسکو سارا قصہ سنایا ۔۔۔۔۔
دونوں میاں بیوی اس بات پر متفق ہو گئے کہ اپنی اولاد اپنی ہی ہوتی ہے اور دوسروں پر بھروسہ رکھنا انسان کی نادانی ہے ۔۔۔۔۔۔
���
بری گام قاضی گنڈ