ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ موسمِ بہارپورے شباب پر تھا۔ پرندے بڑی عاجزی اور انکساری سے خالقِ کائنات کے حمد و شکر میں مشغول تھے۔ ہر جانب دلفریب آوازوں کی گونج تھی۔ جشن ایسا جیسے کہ آج بستی سے خود خالقِ کائنات کا گذر ہوا ہو۔ مسجدوں میں ہو رہے ذکر اور پاس والے محلے میںہو رہی پراتھنا نے تو ماحول کو مزید چاشنی بخشی تھی۔
کلیم آج مسجد سے قدرے پہلے ہی نکل کر سیدھا نانوائی کے پاس چلا گیا۔ لمبی قطار دیکھ کر کلیم کا دل بوجھل سا ہوگیا۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر بھیڑ میں بیٹھنے کے متمنی تھے !!!کرتے بھی کیا؟؟؟ وہاں ہو رہی گفت و شنید تنور کی گرمی سے بھی گرم تھی !!! اس لئے وہ اپنی باری آنے پر بھی دلشاد کی آواز کو نظر انداز کر رہے تھے۔
دلشاد مُحلے کا ایک محنتی باشندہ ہے ۔ اگر چہ وہ پشتنی نانوائی نہیں!!! لیکن حالات نے اُسے ایک پیشہ ور ضرور بنایا تھا۔ وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند اور شریف النفس بندہ ہے۔ بے چارے کو دس روٹیوں کے بجائے کوئی پانچ کا ہی معاوضہ دے تو بھی کبھی تیش میں نہیں آتا!!! ہاں ایک بات ضرور ہے کہ مسکراتے مسکراتے اپنے ہی ہونٹوں سے انتقام لیتا ہے!!! چبا کر ہی سہی!!!
کلیم پر نظر پڑتے ہی بھیڑ میں بیٹھے عظیم چاچا قہقہہ لگاتے ہوئے:
’’ ارے سلطان یہ دیکھوآج کلیم بھی روٹی خریدنے آیا ہے۔ شاید گھر میں مہمان آئے ہوں گے؟؟‘‘
سلطان چاچا ، جس کو لوگ پیار سے سلطان جوکر کے نام سے پکارتے تھے، ایک منفرد اور مزاحیہ انداز میں عظیم چاچا کی بات میں بات ملاتے ہوئے:
’’ ہاں ہاں عظیم ، کلیم کے گھر میں اور مہمان آئے ہوں گے ورنہ دلشاد کی ایسی قسمت کہاں کہ کلیم اس کے دکان پر تشریف لائے!!!‘‘
۔۔۔اس کے ساتھ ہی پوری دکان قہقہوںسے گونج اُٹھی۔۔۔
کلیم کے ہاں روٹی گھر میں ہی بنتی تھی اور گھر کے سبھی افراد نانوائی کی روٹی پسند ہی نہیں کرتے تھے۔لیکن آج اتفاقاََ گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے اور مہمانوں کو گھر میں بنی روٹی پیش کرنا مزائقہ سمجھا جاتا ہے۔اسی وجہ سے بے چارہ کلیم صبح صبح دلشاد کی دکان پر قہقہوں کا مرکز بن گیا۔ اب کرتا بھی کیا ؟؟؟ بے چارہ!!! لوگوں کے قہقہوں میں بناوٹی ہی سہی!!! لیکن اپنی مسکراہٹ بھی ملاتا رہا۔
آخر کچھ دیر یہ سب سہہ لینے کے بعد کلیم کی باری آ ہی گئی۔ اس نے روٹیاں جلدی جلدی اپنی تھیلی میں ڈال کر مسکراتے مسکراتے گھر کی اور چلنا شروع کیا۔ اس کی مسکان دکھاوا تھی یا حقیقت!!!رب ہی جانے۔۔۔۔
اب صبح کے نور کا ظہور ہر سمت ہوا تھا۔ پرندے غذا کی تلاش میں نکل پڑے تھے۔ کلیم بھی چائے پینے کے بعد حسب معمول باورچی خانے سے اپنے کمرے کی اور چل دیا، جو کہ مکان کی دوسری منزل میںتھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی کلیم کو ایک ننھا سا ابابیل کا بچہ دکھا جوشائد اپنے گھونسلے سے گر پڑا تھا۔۔۔
ابابیلیں پچھلے کئی سالوں سے کلیم کے گھر میں اپنا ایک گھر تیار کرتی آرہی تھیں۔وہ اپنی نسل کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ وہ انہیں اپنی زندگی کے سبھی راز بولنا چاہتے تھے۔ وہ سبھی واقعات جن کا سامنا اِن کو زندگی میں آج تک کرنا پڑا تھا۔ وہ ان کو اپنی ہجرت کی مجبوریوں سے آگاہ کرنا چاہتی تھیں۔ وہ مجبوریاں جن کی بدولت ان کو کنیاکماری سے کشمیر تک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔کشمیر سے ان کو ایک فطری لگائو تھا۔یہاں کا موسم ، چھلکتے آبشار، چمکتے سبزہ زار، فلک بوس کوہسار، سماجی ملنساری،یہاں کی سادگی، یہاں کی زندہ دلی، مندروں کی گھنٹیاں ، مسجدوں کی اذانیں، ان پرندوں کو نا جانے دنیا کے کس کس کونے سے کھینچ کے لاتے تھے۔ ان کے دل سے اُن لوگوں کی یاد ہی نہیں جاتی جن کے کچے مکانوں کی آرام گاہوں میں اِن کے گھونسلے ہوا کرتے تھےاور جو صبح کی عبادت سے پہلے ان پرندوں کی غذا کا انتظام کرتے تھے، ان کی خبر گیری کرتے تھے۔جن کے بچے ابابیل کے بچوں کے ساتھ بے خوف کھیلتے تھے۔۔۔
اب یہاں لوگوں نے ترقی کی ہے ۔ وہ سارے کچے مکان زمین بوس ہوئے ہیں ۔ ابابیلیں یہ سب اپنے بچوں سے کہناچاہتی تھیں۔ اب یہاں مکانوں پہ گھاس کی چھت نہیں لگتی۔ وہ لکڑی جو کسی زمانے میں مکانوں کی زینت ہوا کرتی تھی اب پرانی ہوگئی ہے۔ اب یہاں لوگ مٹی سے نفرت کرتے ہیں ۔ جس مٹی سے کائنات میں زندگی کا وجود ہے اُس سے اب لوگ بیمار ہوجاتے ہیں ۔ اب یہاں لوگ اپنے ہی وجود کو پہچانے سے انکار کرتے ہیں۔۔۔۔
کئی سالوں سے کلیم بھی ابابیلوں کی ان کوششوں کو دیکھتا رہا۔ یہ نہیں کہ وہ بچوں کو تیار کرنے کے اہل نہ تھے۔ لیکن بے چاروں کی قسمت ہی بری تھی!!! ہر سال ان کے تین بچے ہوتے رہے۔۔۔لیکن اُڑنے کی کلا سیکھنے سے پہلے ہی اُن کی روح اُڑ جاتی!!!اور یوں اُن کے ارمان ارمان ہی رہ جاتے۔۔۔یہ سب شاید یہاں کی ترقی کی دین تھی کہ ان کے گھونسلے تنگ ہوتے گئے اور ان کے بچے تھوڑا بڑھتے ہی گھونسلوںسے نیچے گِر جاتے اور پختہ سلیب سے ٹکرا کر جان گنوا بیٹھتے۔۔۔
اس سال ابابیلیں بھی یہ عہد کرکے آئی تھیں کہ وہ اپنی داستاں اپنی نسل کو سنانے سے پہلے ہر گز نہ مریں گی۔ ابابیلوں نے اپنا گھونسلہ اس سال کلیم کے گھر میں دوسری جگہ منتقل کیا تھا۔ کلیم کے بیڈ روم سے بالکل باہر ٹھیک سامنے والے کمرے کے دروازے کے اوپر۔۔۔۔
پرندوںکی سوچ بھی کیا !!! ہم انسانوں سے بالکل پرے؛ لیکن ایمان سے بھری ہوئی۔ گھر ایسا بناتے ہیں جیسے کہ فانی دنیا کا سارا درس ان ہی کو ملا ہو۔۔۔
ٹوٹے پھُوٹے گھونسلے میں ہی ابابیلوں نے اپنے ادھورے ارمانوں کو پورا کرنے کی ٹھان لی۔ اب گھونسلے میں وہ صرف خودہی نہیں رہتیں بلکہ اُن کی داستان سننے تین نئی ابابیلوں نے جنم لیا تھا۔ اس بار وہ اپنے بچوں کو کھونا نہیں چاہتی، وہ جان کی بازی لگاکر بھی اُن کو زندہ رکھنا ہستی تھیں۔ وہ اکثر باری باری گھونسلے میں بیٹھتے تاکہ ان کا کوئی بچہ جگہ کم ہونے کی باعث نیچے نہ گِر پائے۔۔۔
کلیم کے ہاتھ میں اپنے بچے کو دیکھ کر ابابیل ؛ جو ابھی ابھی باہر سے چونچ میں اپنے ننھوں کی خاطر کھانا لے کے لوٹی تھی، ان کو کھلائے بغیر واپس چھت کی اور چیختے ہوئے چلی گئی۔ چیخیں ایسی تھیں جیسے کہ کسی کو بُلا رہی ہو۔ پلک جھپک میں ہی وہ باہر سے اپنی ساتھی ابابیل کے سمیت لوٹ آئی اور وہ کلیم کی اور ایسے چلانے لگے، جیسے کہ کوئی قیامت برپا ہوئی ہو۔ایک ابابیل نے تو حد ہی کر لی سیدھے کلیم کے ہاتھوں پر وار کرنے لگی۔۔شائد یہ ننھے ابابیل کی ماں ہوگی!!! کلیم من ہی من گنگناتا رہا۔
ننھے ابابیل کی ماں کلیم سے التجا کرتی ہوئی؛ تڑپتی ہوئی؛ چلاتے ہوئی اُسے اپنا بچہ واپس مانگ رہی ہے۔ شائد اسے اس سانحہ کا علم ہی نہیں کہ اس کا بچہ خود ہی گھونسلے سے گرا ہے اور بے چارہ کلیم اسے گھونسلے میں واپس رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن وہ چلاتی رہی:
’’ مجھے اپنا بچہ واپس کرو۔ ہم پر رحم کرو ۔ چاہے اس کے لئے میری ہی جان کیوں نہ لو۔ ہم نے بہت مصیبتیں جھیلی ہیں۔ ہم بہت دور سے یہاں آئے ہیں۔ تم چاہو تو ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ ہاں ہمیشہ کے لئے۔۔۔تمہیں خالقِ کائنات کی قسم ۔اس خالق کی جس نے ہمیں اور تم سب کو بنایا ہے۔ میرے لختِ جگر کو مجھ سے نا چھینو۔۔۔۔‘‘
ماں ابابیل کی تڑپ دیکھ کر کلیم کا کلیجہ پھٹ گیا۔ اُس کی آنکھو ں میں آنسو اُمڈ آگئے۔وہ بے چین ہوگیا ۔ وہ اوپر نیچے کرتا رہا۔ کرتا بھی کیا بے چارہ !!!وہ تو ننھے ابابیل کو بچانا چاہتا ہے۔ وہ پچھلے تین سال سے ابابیلوں کے حالات سے واقف ہے۔ اسے ان کی لاحاصل محنت پر بہت افسوس ہے۔ وہ ایک نظر چوں چوں کرتے ننھے ابابیل پرڈالتا ہے تو دوسری نظر خود بخود پاس میں بیٹھی انگڑائیاں لیتی ننھی عائشہ پر پڑتی ہے۔ اسے اب ننھے ابابیل میں عائشہ نظر آنے لگی۔۔۔
عائشہ کلیم کی شہہ رگ ہے۔ اس کے بنا وہ ایک پل بھی نہ رہ پاتا۔اس کا جنم جب ہوا تھا تو کلیم نے پورے علاقے کو دعوت پر بُلایا تھا۔ دھوم دھام اتنی تھی کہ کلیم کی شادی میں بھی اتنے مہمان نہیں تھے۔یہ سلسلہ ہر سال عائشہ کے جنم دن پر چلتا رہا۔کچھ دن قبل ہی عائشہ کا جنم دن تھا۔
عائشہ بھی کچھ کم نہیں اپنے ابو کے بغیر کھانا پینا تو دور ؛ سونا بھی حرام۔۔۔
معصوم لہجے میں عائشہ اپنے ابو سے:
’’ ابو آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں آئے، آپ روتے کیوں ہیں؟؟؟؟‘‘
لمبی سانس بھرتے ہوئے کلیم:
’’ نہیں بیٹا روتا کہاں ہوں ۔ میں تو بس ۔۔۔۔میں تو۔۔۔‘‘
عائشہ کلیم کی قمیض کا گریباں کھینچتے ہوئے:
’’ نہیں ابو آپ روتے ہو۔ کیا آپ کو کسی نے ڈانٹا ۔ مجھے بولیں نا۔ میں بھی اس کو ماروں گی۔ کہیں نا ابو۔۔۔ بولیں نا۔۔۔اب۔۔ بو‘‘
اپنی ننھی سی پری کی باتیں سُن کر کلیم ایک گہری سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اس معصوم کو کیا بتاتا کہ اس کا آج ایک ایسی حقیقت سے سامنا ہوا ہے جس کو وہ معصوم تو کیا؛ شاید دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہرا سکتی۔اپنے آنسوئوں کو آنکھوں کے سمندر میں جذب کرتے ہوئے کلیم:
’’ بیٹا مجھے کسی نے ڈانٹا نہیں ہے۔ میں تو۔۔۔ میں تو صرف اس ننھے سے بچے کو اپنے گھر میں واپس رکھنا چاہتا ہو۔ یہ اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے۔ اِس کا باپ مجھ سے التجا کر رہا ہے۔ اس کی ماں تڑپ رہی ہے۔ اس کے دوسرے ساتھی رو رہے ہیں۔ اسی لئے میری آنکھوں میں بھی۔۔۔میری آنکھوں میں بھی۔۔۔۔‘‘
سہمے سے لہجے میں عائشہ:
’’ ابو ان ابابیلوں کا اصلی گھر کہاں ہے ؟ان کو اپنے گھر سے کس نے نکالا ہے؟ کیا کسی نے ان کے گھر کو توڑا ہے؟چلو ہم ان کے لئے ایک ’ بڑااااا‘ ساگھر بنائیں گے۔چلو نا ابو۔۔ میں بھی آپ کی مدد کروں گی۔۔میرے گلک(money bank) میں پیسے ہیں نا۔۔۔ میں بھی آپ کو دوں گی۔۔۔پیسے۔۔اور پھر یہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے ۔اور اُس گھر سے نیچے بھی نہیں گریں گے!!!‘‘
ادھر ابابیلیں باپ بیٹی کی گفتگو سن کر تھوڑی مطمئن ہوگئیں۔ اب ان کو پتا چلا کہ یہ ہمارے خیر خواہ ہیں ۔نر اور مادہ ابابیل ایک دوسرے سے جیسے مخاطب ہوتے ہوئے:
مادہ ابابیل نر سے :
’’ ارے یہ تو میرے بچے کو بچانا چاہتے ہیں ۔ یہ سچ میں ہماری مدد کرنا چاہتا ہے ۔ اور اس کی چھوٹی پری کو تو دیکھو وہ بڑے انسانوں سے بھی سمجھدار ہے۔ ہاں سمجھدار۔۔۔‘‘
پِچ پِچ کرتے ہوئے مادہ ابابیل باہر دوسرے بچوں کی خاطر غذا لینے نکلی۔ یہ دو بچے گھونسلے میں تڑپ رہے تھے۔۔۔ بھوک سے یا اپنے ساتھی کی جدائی میں ۔۔۔۔ یہ تو یا معبودِ بر حق کو ہی علم ہوگا۔۔۔ یا وہ ہی جانے!!!
کلیم نے ننھے بچے کو گھونسلے میں ڈالنے کی بہت کوشش کی۔ مادہ ابابیل بھی اپنی رائے دیتی رہی۔ وہ کلیم کے سر کے اوپر چِلاتے ہوئے اڑتی رہی ؛ اگرچہ تیش میں نہیں ؛ لیکن اس کی پرواز میں تڑپ ضرور تھی۔۔۔لیکن تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں ۔۔۔
ابابیل سے کئی درجہ زیادہ کلیم تڑپتا رہا۔ وہ اوپر نیچے کرتا رہا۔ ننھے بچے کو اپنے دوسرے ساتھیوں سے ملانے کی الگ الگ ترکیبیں کرتا رہا ۔ عائشہ کلیم سے زیادہ بے قرار ہے۔ وہ کبھی ننھے ابابیل کو بچانے کی سوچ میں اپنے ناخن چباتی تو کبھی اپنے ننھے سے ہاتھو ں کو مَلتی۔اُس کی حالت ایسی ہو رہی ہے جیسے خدا ناخواستہ ماں باپ کے بچھڑنے کا غم اُس پر ہی بِیت رہا ہو۔وہ اپنے ابو سے مَنتیں کرتی رہی۔ وہ ہر حال میں ننھے پرندے کو بچانا چاہتی ہے اور اس کی وجہ سے وہ بیقرار بھی ہے۔۔۔
آخر کلیم نے ننھے ابابیل کو جوتے کے ڈبے میں اُٹھا کر ابابیلوں کے گھونسلے کے بالکل مقابل والے دروازے کے ٹھیک اوپر رکھ لیا۔ لیکن ابھی وہ مطمئن نہیں ہو ا کیونکہ اُسے خدشہ تھا کہ بڑی ابابیلوں کے وزن سے ڈبہ دروازے کے اوپر ٹِک نہیں پائے گا۔ اُس نے دھاگہ منگوایا۔ شاید ڈبے کو کسی کیل سے بند کرنے کی خاطر۔۔
اُدھر ننھے ابابیل کی ماں اپنے بچے سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتی۔ تاب نہ لا کر وہ ڈبے کے اوپر اپنے پیر جما بیٹھی۔ ڈبہ بھی شاید ابابیل کا وزن اس لئے برداشت کرتا رہا کیونکہ وہ بھی ماں بچے کو جدا نہیں دیکھ پایا۔ کلیم کے من میں تذبذب ہے۔ وہ اپنے دل تاروں کو بڑی مشکل سے تھامے ہوئے ہے۔ اسے ڈر ہے کہ کچھ ہی دیر میں یہ ڈبہ اُلٹ جائے گا اور ابابیل کا بچہ نیچے گرے گا۔ وہ ماں ابابیل کو بھگانا چاہتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے بچے سے کیوں ملی لیکن اس لئے تاکہ وہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔ مگر ان کی گفتگو دیکھ کر ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ان کو جدا کر سکے!!!
عائشہ ماں بچے کا ملن دیکھ کر پھولے نہ سمائی۔ وہ اُچھل کود میں مست ہے۔ وہ اپنے ابو کے ہاتھوں کو چومتی ہوئی:
’’ ابو دیکھا ہم نے کر کے دکھایا۔ آپ ہیرو ہو ہیرو‘‘
کلیم عائشہ کی باتوں کو بالکل نظر انداز کرتا رہا۔ شائد اس لئے کہ اس وقت اُس کا دھیاں صرف جوتے کے اُس ڈبے پر تھا جس میں ننھا پرندہ اپنی ماں کو فراق کے پلوں کی داستان سنا رہا ہے۔ وہ صرف ذرینہ کو آواز لگا رہا ہے :
’’ ذرینہ۔۔۔ ارے او ذرینہ۔۔۔دھاگہ ہے کہ کوہِ نور ۔۔۔۔تمہیں ملتا ہی نہیں !!!!‘‘
بے چاری ذرینہ نے دھاگہ نہ ملنے پر اپنا ہی دوپٹہ کاٹ لیا اور جلد بازی میں اپنا انگوٹھا بھی لال کر بیٹھی۔۔۔
ابھی ذرینہ کلیم کے ہاتھوں میں خون سے لت پت دھاگے دینے ہی والی تھی کہ نر ابابیل بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ کر پایا اور اپنے پیروں کو ڈبے پر جمانے لگا۔ کلیم اُس کو ہٹانے کی کوشش میں لگا رہا، دور سے ہی سہی، اور جتنے بھی وضائف اُس کو یاد تھے اُن کا ورد کرتا رہا۔۔۔نر ابابیل نے ابھی اپنے پنکھ پوری طرح سے بند ہی نہیں کئے تھے کہ ڈبہ وزن برداشت نہ کرسکا اور راکٹ کی رفتار سے اُلٹ کر نیچے گر گیا۔ کلیم کے منہ سے ’ہائے افسوس‘ کی چیخ نکلی اور اُس کے جسم پر بے حسی طاری ہوگئی ۔ ایسی بے حسی جیسے کہ کلیم ہی کسی اونچی منزل سے گرا ہو۔ اُس کا جسم کانپنے لگا۔۔۔ ننھا ابابیل بھی موت اور زندگی کی کشمکش میں تھرتھراتا رہا۔ابابیلوں نے چِلانا شروع کیا۔ بالکونی میں شورِ محشر بپا ہو گیا۔ عائشہ ہرنی کی طرح نیچے جاکر سب کو یہ خبر سنانے لگی۔۔اُس کی زبان میں طوطلا پن آگیا ۔ اُس کے ہونٹ خُشک ہوگئے۔ وہ گھبرا گئی ۔ شاید اُس نے زندگی میں ایسا سانحہ پہلی بار دیکھاتھا۔۔ گھر کے باقی افراد اس کو سنبھالنے لگے۔۔۔
کلیم اپنا سر پیٹتا رہا۔ ابابیل حالاتِ مجنونی میں کلیم سے التجا کرتے رہے۔ وہ اس کو قصور وار نہیں ٹھہرا رہے ہیں۔ وہ تواس سے ان کے بچے کو بچانے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ کانپتا ہوا ننھا ابابیل کلیم کو مدد کے لئے پکار رہا ہے۔ کلیم بے بس ہے وہ اُن سے معافی مانگتا رہا۔ وہ ننھی سی جان سے اسے بخشنے کی بھیک مانگ رہا ہے ۔ وہ تب تک سر پھٹتا رہا جب تک کہ وہ ننھی سی جان ٹھنڈی نہ ہوگئی اور ٹھنڈ کی لہروں سے کلیم کے جسم میں بھی سردی چھا گئی۔ وہ سیڑھی پر اپنے ماتھے کو پکڑے ہوئے ایک زندہ لاش کی مانند ابابیل کی نسل کا سوگ منا رہا ہے او رذرینہ اُسے سنبھالتے ہوئے ابابیلوں کے گھونسلے کی اور اپنی نظریں جمائی ہے جہاں دو ننھے سے ابابیل موت کے اس منظر کو خاموشی سے سہہ رہے ہیں اور اُن کے ماں باپ ایک دوسرے کو سنبھالتے ہوئے زارو قطار رو رہے ہیں۔۔۔
���
برنٹی اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر. 9906705778
ای میل؛[email protected]