اُن کا نام یونس تھا۔۔۔!
وہ یونس نہیں جس کو مچھلی نگل گئی تھی۔ اُنہیں کئی اندھیروں کا سامنا تھا۔ رات کا اندھیرا، دریا کا اندھیرا، مچھلی کے پیٹ کااندھیرا، پھر اُن کو اِن تمام اندھیروں سے آزادی ملی۔ وہ روشنی میں روشنی لیکر آئے۔
میں جن یونس کی بات کررہا ہوں وہ شہر کے پُرانے بازار میں سٹیشنری ہائوس کے نام سے مشہور ایک بڑا کُتب خانہ چلا رہے تھے۔ اُن کے پاس کچھ نادر نسخہ جات تھے۔ تقریباً سبھی علوم پر کتابیں دستیاب تھیں۔ سٹیشنری ہائوس کے مالک یونس صاحب خود بھی ایک بڑے عالم تھے۔
فلسفہ، تصوف، سیاست اور سماجیات پر اُن کی گہری نظر تھی۔ اُن کا شمار شہر کے اکابرین میں ہوتا تھا۔
اُس دن جب آکاش سے بے بادل کے بجلی گری اور تمام بازار جل کر راکھ ہواتو یونس صاحب کا کتب خانہ بھی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔ اُن سے یہ کربناک منظر دیکھا نہ گیا اور انہوں نے سر سے دستار اُتار کر آگ کے شعلوں کے حوالے کردی اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوئے۔
لوگو! اب علم کے چشمے نہیں اُبلیں گے۔ ادراک پر جہالت کی حکمرانی ہوگی۔ حق، سچ، ایثار، عدل، شرم، حیا جیسے الفاظ اب مہمل ہوگئے۔ اب یہاں کا اُجالا داغ داغ ہوگا!‘‘
اُس کے بعد یونس صاحب راکھ کے ڈھیر کے پیچھے غائب ہوئے۔ کافی تلاش کے باوجود بھی یونس صاحب کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملا۔
اس واردات کے کئی مہینے بعد ایک دن اچانک یونس صاحب نیم عریاں حالت میں ایک بدقسمت شرابی کی طرح شہر کے فٹ پاتھ پر نمودار ہوئے۔ اُن کےکپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ وہ گرد آلودہ فٹ پاتھ پر خاموش تماشائی کی طرح بازار میں چلتے پھرتے لوگوں کے چہروں کو تکتے رہتے تھے۔ یہ اُن کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ وہ صورت سے ہیبت ناک لگتے تھے۔ اورلوگ اب اُن کے قریب جانے سبھی کتراتے تھے!
لیکن مجھے یونس صاحب کو قریب سے دیکھنے کا تجسُس تھا۔
ایک دن میں اُن کے قریب بیٹھا۔ کچھ دیر تک وہ میری طرف خاموش دیکھتے رہے۔ آکر کار انہوں نے زبان کھول دی۔
’’کیوں میرے چہرے کو اس قدر دیکھتے ہو گویا کہ اُس پر کوئی پیغام رقم ہے؟‘‘
’’جی!‘‘ پھر میں کچھ نہیں بول پایا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں۔
’’کتب خانہ پھر آباد ہوگا۔ لیکن اس بار الماریوں کے شیلفوں پر کتابیں نہیں ہونگی بلکہ دیسی اور ولایتی شراب کی کئی اقسام ہونگی۔ اب کے بار اس کُتب خانے میں نشہ بکے گا۔‘‘
’’یونس صاحب! آپ اس بھیڑ میں کیا تلاشتے ہیں؟‘‘
میں نے بڑے انہماک سے پوچھا۔
’’میں لوگوں کی بھیڑ میں سقراط کو تلاش کررہا ہوں۔اُس کے پاس زخمی حروف کا مرہم ہے۔ اُس کے پاس مہمل الفاظ کو کلمہ بنانے کا گُر ہے۔ وہ فلسفی ہے۔ اُس کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ وہ اُداس چہروں پر آشا کی عبارت لکھنا جانتا ہے۔ وہ مظلوموں کی آواز بن کر آٗئے گا۔‘‘
’’لیکن بوڑھے سقراطؔ کو ہزاروں برس قبل زہر الماس دے کر شہید کیا گیا!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’نادان! وہ ضرور آئے گا سقراطؔ کا جسم مرا تھا۔ اُس کی روح امر ہے۔ جب جہالت اور ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ روپ بدل کر نمودار ہوتا ہے۔ کبھی وہ شاعر بن کر آتا ہے اور کبھی کہانی کار یا ڈرامہ نویس کے روپ میں نمودار ہوتا ہے۔ سقراطؔ ضرور آئے گا مجھے یقین محکم ہے۔ اس بھرے بازار میں ضرور سقراط سے میری ملاقات ہوگی۔‘‘
یہ کہہ کر یونس صاحب دفعتاً کھڑے ہوئے اور لوگوں کے جم غفیر میں کہیں کھو گئے۔!!
���
آ?زاد کالونی پیٹھ کا انہامہ، بڈگام
موبائل نمبر؛9906534724