سورج ڈوب چُکا تھا اور شام دُھندلی ہورہی تھی۔ ایک آدمی فورلین سڑک پر اپنی ہی چال سے آگے ہی آگے چلاجارہا تھا۔ جب پیچھے سے کوئی گاڑی آتی تو وہ رُک جاتا اور گاڑی کو رُکنے کا اشارہ کرتا تھا کیونکہ وہ اب تھک گیا تھا اور جلد ہی گھر پہنچنا چاہتا تھا لیکن کوئی گاڑی رُکتی نہیں تھی، تیزی سے گزر جاتی تھی۔ وہ پھر آگے کی طرف مُنہ کرکے چلنے لگتا۔ جب تھک گیا تو ایک جگہ بیٹھ کر سستانے لگا۔ آخر کار اُس نے ایک سکوٹی اُسی طرف آتے ہوئے دیکھی۔ سکوٹی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ سکوٹی چلانے والی لڑکی نے سکوٹی روک دی اور پیچھے بیٹھنے کیلئے کہا۔ آدمی سکوٹی پر بیٹھ گیا۔ لڑکی جوان اور خوبصورت بھی تھی۔ اُس نے جین کی پینٹ اور لینن کی نسواری رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی۔ ریشم جیسے نرم و ملائم بال کھلے تھے۔ بال اُڑ اُڑ کر اُس کے چہرے پر گر رہے تھے اور آدمی کو بھی سہلارہے تھے۔
آدمی اندر ہی اندر سوچ رہا تھا کہ آج اُسے پہلی بار کسی جوان اور خوبصورت لڑکی نے لفٹ دی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہا تھا اور لطف اندوز ہورہا تھا۔ لڑکی بے فکری اور خود اعتمادی کے ساتھ سکوٹی کو فور لین سڑک پر دوڑا رہی تھی۔
آدمی سوچتے سوچتے بے ایمان ہوتا جارہا تھا۔ اُس کے دل میں آیا کہ لڑکی چالو ہے اور اُس کو کسی ہوٹل میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ ایسی ہی لڑکیاں پرائے مرد کو لفٹ دیتی ہیں اور۔۔۔۔۔۔
سکوٹی دھیمی ہوئی ۔ سڑک خراب تھی ، آدمی نے ایک بار پوچھ ہی لیا۔
’’تم نے مجھے لفٹ کیوں دی؟ ڈر نہیں لگا مجھ سے ؟ْ‘‘۔ْ
لڑکی کچھ دیر چُپ رہی اور پھر بولی!
’’یوں تو میں کسی کو لفٹ نہیں دیتی۔۔۔۔ لیکن آج میں نے آپ میں اپنے پاپا کو دیکھا۔۔۔۔ اُس کی شکل صورت بھی آپ جیسی ہی تھی۔ ۔۔۔۔وہ ایک سڑک حادثے میں مارا گیا تھا۔۔۔۔‘‘
’’رُک جائو!‘‘ آدمی نے زور سے کہا۔ ’’میں اپنی منزل پر پہنچ گیا ہوں۔‘‘
لڑکی نے سکوٹی روک لی اور آدمی سکوٹی سے اُتر گیا۔دائیں بائیں دیکھے بغیر ناک کی سیدھ میں آگے بڑھ گیا۔
موبائل نمبر؛7006803106