صبح کی فضا سورج کی کنواری کرنوں میں نہا رہی تھی ،خوب صور ت پھولوں پر شبنم کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے اور رنگ برنگے پرندے اپنے آشیانوں سے نکل کر مسحور کن آوازوں میں چہکتے ہوئے ماحول میں رس گھول رہے تھے ۔اس دلفریب منظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے پروفیسر عاشق حسین مہمان خانے سے نکل کر یونیورسٹی کے وسیع عریض صحن میں ٹہلنے لگااور دانشگاہ کے مختلف شعبوں اور ہوسٹل عمارتوں کے گرد گھومتا رہا۔ قریب ایک گھنٹے تک چہل قدمی کرنے کے بعد عاشق حسین ،جو تنہا ئی پسند تھا ، آکر مہمان خانے کے سامنے بنے خوب صورت باغیچے میں لگی ایک کرسی پر دراز ہوگیا اوراپنے لئے ناشتہ وہیں منگوا کر اخبارات کا مطالعہ کرنے لگا ۔عاشق حسین ایک قابل پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور ادیب اور شاعر بھی تھا جو اپنے شہر سے دور دوسرے شہر کی یونیورسٹی میں ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لئے آیا تھا ۔وہ رنگ بہ رنگے پھولوں سے سجے باغیچے میں بیٹھے اخبارات کا مطالعہ کرنے میں مدہوش ہو گیا اور سگریٹ پہ سگریٹ سلگا کر دھواں فضا میں بکھیرتا رہا یہاں تک کہ دانشگاہ میں لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔
’’مہ ناز ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
وہ اسی کیفیت میں تھا کہ دفعتاً یونیورسٹی کے صدر دروازے ،جو باغیچے سے تھوڑی ہی دوری پرتھا، سے ایک خاتوں کے اندر داخل ہوتے ہی اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔
’’ ابے عاشق اب تو تُو دن میں بھی سپنے دیکھنے لگا ‘‘۔
اس کے اندر سے آواز آئی اور وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے خود پر ہنسنے لگا۔
’’ ارے یہ تو واقعی مہ ناز ہے‘‘ ۔
خاتون ،جو اب اس کے نزدیک پہنچی تھی کی طرف غور سے دیکھتے ہو ئے وہ دھواں فضا میں بکھیرتے ہوئے بڑ بڑایا۔اس دوران وہ خاتون اپنی ناک کی سیدھ میںچلتے ہوئے بغیر اس کی طرف دیکھے اس کے سامنے سے گزر گئی اور وہ مبہوت ہوکر اس کو تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ ایک ہوسٹل عمارت میں داخل ہوگئی ۔
’’ یہ اس شہر میں کیسے ؟ کہیں یہ ۔۔۔۔۔۔‘‘
بڑ بڑاتے ہوئے اس نے ایک لمبی آہ کھینچی اور بیس سال پہلے کی حسین یادوں میں کھو گیا ۔وہ اور مہ ناز ایک ہی یونیوسٹی میں پڑھتے تھے ۔ پہلے پہل دونوں میں شناسائی ہوگئی لیکن جلد ہی یہ شناسائی پیار میں بدل گئی اور دونوں ایک دوسرے کو دیوانگی کی حد تک چاہنے لگے ۔تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ یونیورسٹی کے رنگین ماحول میں بادلوں پر چلتے ہوئے ستاروں سے باتیں کرنے لگے اور اپنے حسین خوابوں کے محل سجاتے رہے ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد دونوں نوکری کی تلاش میں لگ گئے اور روزگار ملتے ہی شادی کے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کرلیا ۔اس دوران مہناز نے ایک دن عاشق کو اپنی سالگرہ کے موقعے پر مدعو کیا تاکہ اسے اپنے والدین سے ملاسکے۔
’’ڈیڈی ۔۔۔۔۔۔ یہ عاشق حسین ہیں جن کے بارے میں میں آپ کو بتا چکی ہوں‘‘ ۔
تقریب کے دوران ہی مہ ناز نے عاشق کا تعارف اپنے والد سے کراتے ہوئے کہا ۔وہ بڑے ہی پرتپاک انداز میں عاشق سے ملا اور کچھ دیر تک اسے باتیں کرتا رہا ،جسے عاشق نے اس کی طرف سے رشتہ پکا سمجھ لیا اورتقریب ختم ہونے کے بعد میزبانوں سے اجازت لے کر خوشیوں میں جھومتے ہوئے واپس نکل گیا ۔کچھ دنوں بعد ہی عاشق کو سرکاری نوکری ملی اور وہ محکمہ تعلیم میں استاد تعینات ہوگیا،جس کے بعد اس نے اپنے والدین سے مہ ناز کا ذکر کرکے رشتہ طے کرنے کے لئے ان کی رضا مندی بھی حاصل کرلی ۔ان دنوں عاشق کے قسمت کے ستارے جیسے چمک رہے تھے اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔وہ اور مہ ناز تقریباً ہر روز ملتے تھے اور اپنی آنے والی زندگی کے خوابوں کے محل تعمیر کرتے تھے ۔اس دوران ایک دن ان دونوں کے درمیان معمولی تو تو میں میں ہوگئی اور بات یہاں تک بڑھ گئی کہ مہ ناز عاشق کو چھوڑ کر چلی گئی ، عاشق نے اُسے یہ سوچ کر نہیں روکا کہ چند دن میں اس کاغصہ ٹھنڈا ہوگا اور وہ خود ہی مجھ سے ملنے چلی آئے گی ۔ لیکن یاس و حسرت جیسے پھن پھیلائے ہوئے تھے ، دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے لیکن نہ ہی مہ ناز اس سے ملنے آئی اور نہ ہی اس کا کوئی پیغام ملا ۔عاشق کے لئے یہ ایک پریشان کن صورتحال تھی جب اس کے لئے انتظار کرنا دشوار ہوگیا تو ایک دن وہ بے چین ہوکر مہ ناز کے گھر تک پہنچا ۔لیکن وہاں اس کو تب بہت صدمہ پہنچا جب ان کے پڑوسیوں نے اسے کہا کہ وہ لوگ چند ہفتے پہلے گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر تھے کہ وہ کہاں اور کیوں چلے گئے۔
وہاں سے مایوس نکلنے کے بعد عاشق نے اپنے آپ کویہ سوچ کر تسلی دی کہ وہ کہیں سیر وتفریح پر یا کسی رشتہ دار کے یہاں گئے ہونگے اور چند دنوں میں واپس آئیں گے ۔لیکن اس کی یہ امید بھی بھر نہیں آئی ۔ایک سال سے زیادہ وقت تک وہ مہ ناز کی تلاش میں شہر کی گلیوں کی خاک چھانتا رہا لیکن ناکام رہا، مہ ناز تو کیا اس کا کوئی اتہ پتہ بھی نہیں ملا ۔آخر تھک ہار کر اس نے اپنے پیار اور وعدوں کی لاج رکھنے کے لئے آخری وقت تک مہ ناز کا انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔بعد ازاں اس نے پی ۔ایچ ۔ڈی ۔کی ڈگری حاصل کی اور پروفیسر تعینات ہوگیا جب کہ کئی کتابیں تخلیق کرکے ادبی حلقوں میں کافی نام کمایا ۔آج بیس سال کے لمبے عرصے کے بعد مہ ناز کو دیکھ کر عاشق پر عجیب سی دیوانگی چھا گئی، اس کے اندر ایسی ہلچل مچی جیسے برسوں سے کائی جمی جھیل میں کسی نے بھاری پتھر اچھال دیا ہو ۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ کہاں کھوئے ہیں آپ ؟سیمینار کا وقت ہو رہا ہے‘‘۔
سوچوں میں غلطاں و پیچاں عاشق کی سماعتوں سے اس کے دوست ڈاکٹر حیدر کی آواز ٹکرائی ۔اس نے چونک کر گھڑی کی طرف دیکھا تو سیمینار شروع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا ،وہ جلدی سے اٹھا اوراپنے کمرے میں داخل ہو کر گنگناتے ہوئے تیاری کرنے لگا ۔تیار ہو کر جب وہ واپس نکلا تو اس کے دوست اسے دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے کیوں کہ آج اس نے پہلی بار اپنے آپ کو اتنا سجایا سنوارا تھا کہ اسے پہچاننا مشکل ہو رہا تھا ۔ کلین شیو،چہرے پر ہلکا سا میک اپ اور روکھے روکھے اُلجھے بالوں کونہایت ہی قرینے سے سنوارنے کے علاوہ اس نے نیا سوٹ اور نیک ٹائی بھی پہنی تھی ۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ آج اس قدر سجنے سنورنے میں کیا راز ہے ؟‘‘
اس کے دوستوں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا ۔
’’سیمینار میں جانا ہے بھائی ۔۔۔۔۔۔ وہاں بیسیوں جان پہچان والے ملتے ہیں‘‘ ۔
اس نے مختصر سا جواب دیا ۔جب وہ سیمینار ہال میں پہنچا تو ہال مرد وزن سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مہ نازبھی سامنے والی قطار میں کرسی پر براجماں تھی ،منتظمین نے عاشق کو بھی اسی لائین میں مہ ناز کے نزدیک ہی ایک کرسی پر بٹھایا، لیکن مہ ناز نے کوئی رد عمل نہیںدکھایا، جو عاشق کو سخت ناگوار گزرا ۔تھوڑی دیر بعد جب اینکرنے عاشق حسین کا مختصر تعارف پیش کیا اور اسے سیمینار کی صدارت سونپتے ہوئے ایوان صدارت میں آنے کی گزارش کی تو مہ ناز چونک کر اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے یوں مسکرائی جیسے گل لالہ شبنم کی پہلی بوند پر کھل اٹھتا ہے ،جس کے ساتھ ہی مسرت کی ایک بھر پور لہر اس کے پورے جسم میں سرائیت کر گئی ۔ بعد ازاںمہمانوں کا استقبال کرنے والے میزبان نے جب خاص طور پر ڈاکٹر مہ ناز کا نام بھی لیا تب جا کے آشق کو پتہ چلا کہ وہ اسی یونیورسٹی میںبحثیت پروفیسر تعینات ہے ۔ پوری تقریب کے دوران مہ ناز عاشق کو تکتی رہی ، ہر لمحہ کے ساتھ اس کی بے چینی بڑھتی ہی رہی اور عنابی ہونٹوں پر خاموشی کا غبار سا چھایا رہا جب کہ عاشق کوبھی سیمینار ہال کی چار دیواری سانپ بن کر ڈسنے لگی۔ وہ یہ جاننے کے لئے بے تاب ہورہا تھا کہ آخر مہ ناز نے کس بات پر اسے اتنی بڑی سزا دی ۔ساتھ ہی وہ مہ ناز،جس کا حسن و شباب ابھی برقرار تھا، کو کنکھیوں سے چھپ چھپا کردیکھتا رہا ۔
’’وہی دھلا دھلا تازہ گلاب سا چہرہ ۔۔۔۔۔۔ گالوں پہ شفق کھلے ۔۔۔۔۔۔ وہی لمبے ریشمی بال ۔۔۔۔۔۔ بڑی بڑی مخمور آنکھیں جن میں جیسے کنول کے پھول تیرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پتلے پتلے ہونٹوں پر گلاب کی پتیاں بکھری۔۔۔۔۔۔
وہ دل ہی دل میں مہ ناز کے سحر انگیز حسن کی رنگینیوں میں کھویا تھا کہ دفعتاً صدارتی خطبے کے لئے اسے ڈائیس پر آنے کی دعوت دی گئی ۔
معزز خواتین و حضرات ۔۔۔۔۔۔ آج کی یہ پر وقار تقریب میری زندگی کی سب سے زیادہ اہم اور یاد گار تقریب رہے گی ۔عاشق نے اپنا مختصر صدارتی خطبہ سمیٹتے ہوئے منتظمین کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا ۔تقریب ختم ہونے کے بعد مہمان جانے لگے تو عاشق،مہ ناز سے دو باتیں کرنے کی شدید تڑپ کے با وجود ،بوجھل قدموں سے مہمان خانے کی طرف جانے لگا ،کیوں کہ انا کا بے لگام گھوڑاآڑے آیا۔
’’تم مجھ سے نہیں ملوگی تو پھر سورج طلوع نہیں ہوگا کیا؟۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی تم کوئی جنت کی حور نہیں ہو‘‘ ۔
عاشق کے یہ آخری الفاظ تھے، جو مہ ناز نے سنے تھے اور زہر میں بجھے تیروں کی طرح اس کے جگر میں پیوست ہوئے تھے، کو یاد کرتے ہوئے اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ان ہی الفاظ کی وجہ سے وہ اپنے ڈیڈی،جو کچھ عرصہ سے اپنے کاروبار سمیت دوسرے شہر منتقل ہونا چاہتا تھا، کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہو کر جدائی کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوئی تھی ۔ اس بار بھی یہ الفاظ ہتھوڑی کی طرح کھٹ کھٹ اس کے کانوں میںبج رہے تھے لیکن وہ ضبط نہیں کرسکی اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے عاشق کے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔
’’ سنیے ۔۔۔۔۔۔سنیے ذرا۔۔۔۔۔۔‘‘
دفعتاً ایک خوابدیدہ آواز سن کر عاشق چونک کر پیچھے کی طرف مڑا تو مہ ناز اس کے بالکل قریب تھی ۔
’’کیسے ہو ڈاکٹر صاحب ؟‘‘
’’سانسیں چل رہیں ہیں مہ ناز صاحبہ‘‘ ۔
’’شکر ہے آپ نے مجھے پہچانا‘‘ ۔
مہ ناز نے کہا تو پھر دونوں طرف خاموشی چھا گئی ۔
’’ساتھ میں اور کون کون ہے ؟‘‘
چند منٹ کی خاموشی کے بعد مہ ناز گویا ہوئی ۔
وہی تنہائی جس نے کبھی ساتھ نہیں چھوڑا ۔
’’کیوں؟کوئی جنت کی حور نہیں ملی ۔۔۔۔۔۔ ؟‘‘
مہ ناز نے طنز کرتے ہوئے کہا ۔
’’ اپنے وعدوں کی لاج رکھتے ہوئے جوانی کے قیمتی دن ہاتھ سے سرکتی ریت کی طرح گزر گئے لیکن؟ ۔۔۔۔۔۔ خیر ۔۔۔۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں یہ آنسوں کیوں؟‘‘
’’ یہ آنسوں میری محبت کے رازدار اور میری وفا کے گواہ ہیں‘‘۔
مہ ناز نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا تو دونوں کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے لگے اور وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کچھ دیر گلے شکوے کرنے کے بعد فرط نشاط و انبساط میں جھومتے ہوئے مہمان خانے کی طرف چل پڑے۔
٭٭٭
موبائل نمبر9906526432
رابطہ ؛اجس بانڈی پورہ 193502 کشمیر
ای میل؛[email protected]