جون کا مہینہ تھا دن کے بارہ بجنے کو تھے سورج اپنے شباب پر تھا ۔مریض کلنک پر ڈاکٹر کا انتظار کر رہے تھے ۔سب لوگوں کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ میں بھی بخار سے جل رہا تھا ۔میری باری آنے ہی والی تھی کہ ایک بزرگ خاتون ہاتھ میں عصا لیے کھڑی ہوئی اور سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھ کر کہنے لگی بیٹا اپنی باری مجھے دو گے ؟۔اس کی کمزور آنکھوں سے دو موتی نیچے گرنے ہی والے تھے کہ میں نے اس کا ہاتھ تھام کر پوچھا کیا بات ہے ماں کیوں رو رہی ہو؟ بوڑھی عورت آنسوئوں پونچھتے ہوئے۔۔۔
بیٹا کچھ نہیں ۔
ماں تمہیں میری قسم کیا بات ہے تم اتنی غمگین کیوں ہو۔؟اور تمہارے ساتھ کون آیا ہے یہاں ؟
میں نے یکے بعد دیگرے یہ سوالات پوچھے۔
اس ضعیف عورت نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا ،کیا کرو گے میری کہانی جان کر ؟میں نے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ بس میں سننا چاہتا ہوں ۔مجھے تم میں اپنی مرحوم ماں نظر آتی ہے۔
ہاں بیٹا! کچھ لوگوں کی قدر ان کے چلے جانے کے بعد ہی آتی ہے ۔دراصل میرے شوہر کی موت جوانی میں ہوئی اور ایک بیوہ کو بسر اوقات کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ، اس کا انداز لگانا بھی مشکل ہے۔میں نے دن رات ایک کر کے اپنے بیٹوں کی پرورش کی۔ دن بھر لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھتی تھی تب جا کر اپنے بچوں کو کھانا کھلاتی تھی۔تمنا تھی کہ کسی دن چین کی سانس لوں گی۔میں نے اپنی ساری جوانی اپنے بیٹوں کو پالنے میں صرف کی۔میں نے گھر گھر جا کر مزدوری کر کے اپنے بیٹوں کو پڑھایا لکھایا ۔بیٹا میں تین بیٹوں کی ماں ہوں ۔بڑا بیٹا لیاقت تحصیلدار ہے، جس نے شادی کے فوراً بعد مجھ سے اپنا پلو جھاڑ لیا اور آج اپنی بیوی بچوں سمیت شہر میں رہ رہا ہے۔ اس کی لیاقت ایسی نکلی کہ کبھی مرا حال بھی نہیں پوچھتا ۔اسے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ اس کی کوئی ماں بھی ہے۔یہ کہنا تھا کہ یہ ضعیف عورت خاموش ہو گئی ۔میں نے اس کا ماتھا چوما اور اصرار کیا کہ ماں اور دو بیٹے ۔۔۔۔۔
ہاں میرا دوسرا بیٹا محکمہ تعلیم میں بحثیت لیکچرر ہے جس کی بیوی ایک ڈاکٹر ہے، جسے میں نے ایک بار اس کے پہناوے پر ذرا سا کیا ڈانٹا، کہ خفا ہو کر میرا بیٹا اپنی بیوی بچوں کو لے کر چلا گیا، کبھی فون پر بھی میری عیادت نہیں کرتا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا ڈانٹنا مجھے انتا مہنگا پڑے گا۔اب میری ساری نظریں اپنے چھوٹے بیٹے عنایت پر تھیں،جو بے روزگار تھا۔ بھائیوں کے چلے جانے پر میں نے اسے اپنے ساتھ رکھا۔مختلف افسروں کے پاؤں پکڑ کر میں نے اسے پولیس محکمہ میں بھرتی کرایا۔لیکن حال ہی میں اس نے بھی مجھ پر عنایت کی اورمجھے اپنے گھر سے نکال دیا ۔ اب میں دن بھر در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہی ہوںاور رات کو اپنے پرانے اور بوسیدہ مکان میں مصیبت کے لمحات کاٹی ہوں۔اب تو گھر کی دیواریں بھی مجھے جیسے کاٹنے کو دوڑتی ہیں۔ جب ہمت ہوتی ہے تو کھانا بنا کر کھا لیتی ہوں ۔کبھی کوئی ہمسایہ میری بے چارگی پر ترس کھا کر مجھے کھانا کھلاتا ہے تو کبھی بنا کچھ کھائے کسے کونے میں پڑی رہتی ہوں۔کبھی کبھی پاگلوں کی طرح دیواروں سے باتیں کرتی رہتی ہوں ۔میری روداد سن کر گھر کی دیواروں میں بھی نمی سی نمودار ہو گئی ہے۔ ہم دونوں باتوں میں اس قدر مگن ہوئے کہ وقت کا خیال ہی نہیں رہا ۔اتنے میں ہسپتال کے چپراسی نے آواز دی ۔ڈاکٹر صاحب کے نکلنے کا وقت آ گیا ہے ۔پھر کسی کو ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے۔میں نے اپنے آنسوں پوچھتے ہوئے کہا ۔چلو ماں میں تمہیں ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جاؤں گا ۔نہیں بیٹا میں ٹھیک ہو گئی ہوں ۔آج میرے من کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔میرے بیٹوں نے کبھی مجھے اس طرح نہیں سنا۔ہمیشہ مجھے دھتکارتے رہتے تھے ۔بیٹا میں ایک بد نصیب ماں ہوں۔جو تین تین بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی بے اولاد ہے ۔یہ کہہ کر وہ ضعیف عورت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔میں نے اس ضعیف خاتون کو گلے سے لگایا اور کہا نہیں ماں تم بد نصیب نہیں ہو بد نصیب تمہارے بیٹے ہیں بیٹے۔ جو تمہارے سعادت مندی سے محروم ہو گئے ہیں ۔مجھے تمہارے بد نصیب بیٹوں پر ترس آتا ہے۔جو اپنی جنت کو مفت میں گنوا بیٹھے ہیں ۔
���
اویل نورآباد، کولگام
موبائل نمبر؛7006738436