نیلوفر کی شادی تین سال پہلے معظم سے ہوئی تھی۔معظم اچھا انسان نہیں۔ہر روزوہ اپنی بیوی کو مارتا اور طعنے دیتا رہتا ۔نیلوفر ماں بننے والی تھی لیکن اس کے باوجود بھی معظم اس پر زیادتی رہتا تھا اور ایک دن وہ گھر میں دوسری عورت کو لے آیا اور نیلوفر کو گھر سے نکال دیا۔نیلوفر کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اتنا بڑا دکھ لے کر وہ اپنی ماں کے پاس کیسے جائے۔اس کی بوڈھی ماں بہت بیمار رہتی تھی لیکن اب اس کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا اور آخر کار وہ اپنی ماں کے پاس چلی جاتی گئی۔
نیلوفر بیٹا تو اچانک، کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے۔ ماں نے کہا۔
ماں میں ہمیشہ کے لیے آئی ہوں،اب میں وہاں کبھی نہیں جاؤں گی۔وہ گھر میں دوسری عورت کو لے آئے ہیں۔ اس بچے کی ذمہ داری بھی اب مجھے خود نبھانی پڑے گی۔ میں اپنے بچے کو ماں باپ دونوں کا پیار دوں گی۔نیلوفر رونے لگی ہے لیکن ماں نے اُسے دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اب اس کو پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے وہ دوسروں کے گھروں میں کام کرنے لگی،نو مہینے بعد اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس کی بیمار ماں کچھ دن بعد ہی مر گئی اور وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگی۔اس نے دوبارہ کام پر جانا شروع کیا۔اس نے اپنے بیٹے سلیم کے لیے مزدوری کی۔سلیم جب بڑا ہونے لگا تو ایک دن اس نے اپنی ماں سے پوچھا ۔
ماں آپ روز روز کہا جاتی ہو؟
بیٹامیں ایک فیکڑی میں کام کرتی ہوں ،وہاں پر میری طرح بہت ساری عورتیں کام کرتی ہیں۔
وہ اپنے بیٹے سے جھوٹ بول رہی تھی۔اگر آج سلیم کو میں سچائی بتاتی تو شاید وہ مجھے مزدوری نہیں کرنے دیتا اور پھر اس کی پڑھائی ممکن ہی نہیں بنتی،نہیں نہیں جب تک یہ پڑھ لکھ کر کچھ بن نہیں جاتا تب تک میں لوگوں کے گھروں میں کام کروں گی۔
آخر سلیم پڑھ لکھ کر ایک بہت بڑا آفیسر بن گیا اور اپنی پسند کی شادی بھی کی۔اس کی بیوی صبا کو اپنی ساس کے ساتھ رہنا بالکل بھی پسند نہیں تھا اور ایک دن اس نے سلیم سے کہا۔
اس گھر میں اب میں رہوں گی یا تمہاری ماںـ۔۔۔
سلیم نے بنا سوچے سمجھے ماں سے کہا کہ اب ہم آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتے،ہمارا بھی اپنا جیون ہے۔
نیلوفر ان لوگوں کے جانے سے بہت دکھی ہوگئی۔کچھ دن بعد سلیم کو اپنے نئے گھر میں ایک کام والی کی ضرورت پڑتو صبا کو ایک عورت کی مدد سے ایک کام والی مل گئی۔اگلے روز وہ عورت اس کام والی کو لے کر صبا کے گھر گئی تو سلیم کی نظر اپنی ماں پر پڑی تو وہ حیران رہ گیا ۔
یہ آپ کس کو لے آئی۔ یہ بوڑھی عورت ہمارے گھر کا کام نہیں سنبھال سکتی ۔صبا نے غصے میں کہا۔
وہ عورت صبا سے مخا طب ہو کر کہنے لگی کہ اس کو میں بہت سالوں سے جانتی ہوں یہ بہت اچھی عورت ہے۔اس نے اپنے بیٹے کے لیے مزدوری کی ،گھر گھر جا کر لوگوں کے گھروں میں کام کرتی رہی اور اپنے بیٹے کو بڑا آفیسر بنایا لیکن اس کے بیٹے نے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ اب یہ بیچاری کام کرنے کے لیے پھر سے مجبور ہوگئی ہے۔ یہ باتیں سن کر سلیم شرمندہ ہوگیا اوراپنی ماں سے معافی مانگنے لگا۔ آخر کا رنیلوفرپھر اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے لگی۔
���
محلہ توحید گنج بارہمولہ،[email protected]