" دیکھ امجد ، تمہاری بیوی کے یہ روز کے ڈرامے نہیں چلنے والے ہیں۔۔۔ اسے کہہ دے کہ آکر رسوئی گھر کی صفائی کرے ۔۔۔۔ ایک تو میکے سے خالی ہاتھ آئی اور اوپر سے مہرانی کا ناٹک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔ " شبانہ بیگم نے رعب جماتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا۔۔۔
" جی ماں ۔۔۔۔ کہہ دوں گا ۔۔۔"
" تو یہاں کھڑے کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے۔ جا اور جاکر اسے نیچے بلا کے لا اور اگر نہ مانےتو اسے گھسیٹ کر لے آ۔۔۔۔"
امجد، جو ہر وقت اپنی ماں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتا تھا، کے صبر نے آج جواب دے دیا اور وہ بےساختہ بول پڑا ،"ماں آخر تم اس معصوم پر اتنے ظلم کیوں نہ ڈھاتی ہو۔۔۔۔ تمہارے دل میں ذرا برابر بھی رحم نہیں ہے۔۔۔ آخر تم بھی تو ایک عورت ہو، ایک ماں ہو، کسی کی بیٹی ہو۔۔۔۔ تمہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جہیز نہ صرف قانونی جرم ہے بلکہ دین اسلام نے بھی اس کی سخت ممانعت کی ہے ۔۔۔۔ اگر آپ کی ساس نے بھی آپ کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہوتا تو کیا آپ اُن کا لحاظ دیکھتیں؟۔۔۔یہ تو اس بیچاری کی معصومیت ہے جو اب تک چپ ہے۔ ورنہ۔۔۔۔۔! ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر تو دیکھیں شاید آپ خود سے روبرو ہو جائیں۔۔۔"،یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا۔
چند روز بعد شبانہ بیگم کے مزاج میں ایک الگ ہی بدلاؤ نظر آ رہا تھا، شاید اس کی بیٹے نے واقعی میں اس کو اپنے آپ سے روبرو کروایا تھا۔۔۔۔
���
لوہند شوپیان،طالب علم گیارہویں جماعت
موبائل نمبر؛9858045613