کیا یہ سبھی کام مجھے ہی کرنے ہیں ۔ بچوں کی پرائر کے وقت قطاریں بنانا، فون پر انکو اطلاع دینا ، ایکسکرشن جانا ہو تو گاڑیوں وغیرہ کا بندوبست بھی میری ہی ڈیوٹی ہوتی ہے اور اب اسکول کے ٹائم ٹیبل میں بھی مجھے ہی زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہے۔ میں اس محکمے میں پچھلے بیس سالوں سے کام کررہا ہوں ۔ میں یہ تمام کام نہیں کروں گا ۔۔۔
میٹنگ میں محمد اسحاق نامی ایک استاد دیگر اساتذہ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔۔۔
دو ہفتے بعد صوبے کے ناظم تعلیم کو علاقے کا دورہ کرنا ہے ۔ اس کے لئے کھانے پینے کا انتظام اسی اسکول میں رکھا گیا ہے ۔ اب اسکول انتظامیہ کو ہی اپنے آفیسر کی خاطر انتظامات کرنے ہیں ۔۔۔۔
بریک کے وقت ہیڈماسٹر صاحب نے میٹنگ کا انعقاد کیا ہے جس میں انتظامات کو حتمی شکل دینی تھی ۔ سبھی اساتذہ اپنی اپنی رائے کے مطابق انتظامات کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور درکار اشیاء کی فہرست بھی بتارہے ہیں ۔ محمد اسحاق کے ہاتھ میں قلم اور کاغذ ہیں اور وہ اشیاء کی فہرست ترتیب دے رہے ہیں ۔ جب محمد اسحاق نے اشیاء کی فہرست مکمل بنائی تو ہیڈماسٹر صاحب کے ٹیبل پر رکھی ۔۔۔۔۔
باری باری ہر کوئی استاد فہرست پر نظر ڑال رہا ہے ۔ فہرست دیکھ کر سبھی اساتذہ حیران ہوئے کیونکہ محمد اسحاق نے اس میں بہت غلطیاں کی تھی ۔۔۔۔ Sugerکی سپیلنگ اس نے sagar لکھی تھی , milk کی سپیلنگ اس نے malik لکھی تھی، juice کی سپیلنگ اس نے jice لکھی تھی اور dry-fruit کو اس نے drifrote لکھا تھا ۔۔۔
جب ہیڈماسٹر صاحب کو دیگر اساتذہ نے فہرست دکھائی تو وہ محمد اسحاق پر برس پڑے ۔
’’ یہ کیسی فہرست بنائی ہے ۔ کیا پڑھا ہے تم نے ۔ ازسرنو اول جماعت میں داخلہ لینا چاہیے ۔ اول جماعت کے بچے اس سے بہتر لکھ سکتے ہیں ۔ تجھے شکر کرنا چاہیے کہ نوکری مل گئی ہے ورنہ آج اعلی تعلیم یافتہ اور بہت ہی ذہین بےروزگار نوجوانوں کی کثیر تعداد معمولی نوکری کے لئے بھی ترس رہیں ہیں۔ تم کو شرم آنی چاہیے ۔ معمولی کام کو بھی تم بوجھ سمجھتے ہو ۔۔۔‘‘
���
قاضی گنڈ کشمیر