کاش میرا بھی نیا بستہ ہوتا۔آج صبح منی ٖپھر سے اپنی اماں رضیہ سے پوچھ رہی تھیں۔
اماں میرا بستہ آپ لوگ کیوں نہیں لاتے؟
رضیہ:ـــبیٹاگزارا کر لو میں تمہارے بابا سے کہہ کر جلد ہی نیا بستہ لانے کی کوشش کروں گی۔
منی:میں کسی کو جواب بھی نہیں دے سکتی کہ میرے گھر والے مجھے نیا بستہ کیوں نہیں دلا رہے ہیں۔
رضیہ: مجھے معلوم ہے بیٹا،اسی لیے تو مجھے تم سب سے زیادہ عزیز ہو۔
منی:اماں مجھے اسکول کے لیے دیر ہو رہی ہے۔
رضیہ: ٹھیک ہے بیٹا، چلو میں باہر تک ساتھ آئونگی۔
ہاہاہا۔۔۔ہاہاہا دیکھو دیکھو اس کا بستہ ،آج پھر پرانا بستہ لے کر آئی ہے۔سبھی بچے اس کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن اس کو اپنی اماں کی باتیں یاد آتی ہیں کہ وہ جلد ہی نیا بستہ دلا دیں گی۔
وہ اپنی کلاس میں اول آتی تھیں جسکی وجہ سے ہر ایک استاد اس کی بہت عزت کرتا تھا۔وہ بہت ذہین تھی لیکن ایک بستے کے لیے وہ اندرہی اندرپریشان تھی۔
وہ جب بھی کسی بچے کا نیا بستہ دیکھتی تھی تو من ہی من میں یہ تمنا کرتی تھی کہ کاش میں ان ہی کے گھر میں پلی بڑی ہوتی تو میرے پاس بھی نیا بستہ ہوتا۔وہ اپنے بابا سے ڈرتی تھی اور اُس کے سامنے بہت کم بیٹھا کرتی تھی کیوں کہ اس کا بابا کا مزاج سخت تھا۔
ایک دن جوں ہی وہ اسکول سے آئی تو اماں نے اس سے کہا کہ۔۔۔
رضیہ: بیٹا آج میں تمہیں نیا بستہ دوں گی۔
منی:سچ مچ اماں۔
رضیہ:ہاں بالکل!
منی:تو جلدی سے مجھے دے دو،کہاں ہے میرا نیا بستہ ؟
وہ جب بستہ دیکھتی ہے تو وہ اس کی بڑی بہن کا ہوتا ہے۔
منی:اماں یہ تو میرے بستے سے بھی پرانا بستہ ہے،مجھے لگا تھا آپ نے میرے لیے نیا بستہ لایا ہے ۔
رضیہ:نیا ہی تو ہے میرا مانو کل سے یہی بستہ لے جانا ۔
وہ اُس رات اچھے سے سو بھی نہیں پائی ۔اس کو معلوم تھا کہ کل سبھی بچے پھر سے میرا مذاق اڑائینگے۔
اس کا یہ دوسرا بستہ تھیلہ جیسا لگ رہا ہے۔ جسے وہ ہر اک کی نظروں سے چھپا چھپا کر چل رہی تھیں لیکن وہ روز کی طرح آج بھی اُن بچوں کی باتوں کا شکار ہو گئی۔
ارے مومن،نجما،اعجاز ۔۔۔دیکھو تو آج یہ دوسرا بستہ لے کر آئی ہے۔ ہمارے گھر میں ایسا ہی بستہ ہے اور میرے اَبا اس میں سبزی لاتے ہیں۔ہاہاہا ہاہاہا
یہ سن کر وہ اپنے بستے کو زور سے پکڑ کر کلاس میںچلی گئی۔آج کلاس میں نئی ٹیچرآئی تھی۔منی کا بستہ دیکھ کر ٹیچر نے اُس سے کہا کہ بیٹا تم اِس بستے کو کبھی دھوتی نہیں ہو،کتنا میلا لگ رہا ہے۔
اس نے جواب دیا کہ یہ بستے کا رنگ ہی ایسا ہے۔اُس دن منی کوجیسے کسی نے مار ہی ڈالا ہو۔
کچھ دن بعد وہ اپنے کلاس میں اول آئی ۔اس نے آج ٹھان لی ہے کہ میں نیا بستہ لے کر رہوں گی۔
منی:اماں میں کلاس میں اول آئی ہوںمگر بستے کی کششںدل میں ہی رہیــ۔
رضیہ: مجھے پتا تھا بیٹا تو اس بار بھی اول آئے گی۔
منی: اماں مجھے نیا بستہ لے کر دو۔
رضیہ:بیٹا میں اس بار تمہیں نیا بستہ لے کر دیتی لیکن یاد آیا کہ اب تو نئے کلاس کی کتابیںبھی لاکر دینی ہونگی،اب تم ہی بولو نیا بستہ یا کتابیں۔
اس کو یاد آیا کہ کیسے سبھی اُستاد اس کی عزت کرتے ہیں۔ وہ اماں سے کہتی ہے کہ نہیں اماں مجھے تو کتابیں ہی چاہئیں نیا بستہ نہیں۔کاش آج مجھے وہ بستہ کتابوں کے ساتھ ملتا تو میں کتنی خوش ہو جاتی پر صرف ایک چیز کا انتخاب اماں مجھے پاگل کر دے گا۔زندگی میں ایک چیز کا انتخاب واقعی مشکل ہوتا ہے۔میرے دل میں آج بھی اس بستے کی کشش موجود ہے مگر واقعی اس بستہ کی آڑ میں اپنے بابا کو گنوا بیٹھی۔ بیماری کی وجہ سے وہ بھی زیادہ دیر تک نہ ٹک سکے۔یہ باتیں یاد کر کے میں کسی بچے کو بستہ لگا کر دیکھ کر وہ دور یاد کرتی ہوں جس میں ،میں اپنے بستہ کے لیے رویا تھا، جو مجھے کبھی نہیں ملا۔غربت کی وجہ سے میں ان بچوں کے طعنے بھی سنا کرتی تھی واقعی دل کے ارمان میرے دل سے نہیں نکلے۔
���
محلہ توحید گنج بارہمولہ