طوائف
سیما طوائف کی موت ہوئی۔محلے والوں نے جنازے میں شرکت نہیں کی۔غسل دینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوا تو اس کی دو بیٹیوں نے نہلایا اورکفن میں لپیٹا۔۔۔ قبر کے لئے مقبرہ نہ ملا تو اس کو مجبوراً گلی کے نکڑ پر خالی زمین میں مٹی کے حوالے کیا گیا۔ پھر فاتحہ کے لئے کوئی نہ آیا۔۔ چند سال بعد سیٹھ اکرام کی رحلت ہوئی۔ جنازے میں ہزاروں لوگ شامل تھے اور اجل کے ساتھ ہی ہوس بھی ٹھنڈی ہوگئی جو وہ بُجھانے کے لئے اکثر سیما کے پاس جاتے تھے۔۔۔
اسکول فیس
انھوں نے شوق سے بیٹے کا داخلہ انگریزی اسکول میں کرایا۔امجد پرائویٹ ملازم تھا۔آٹھ ہزار تنخواہ۔مشکل سے گزارہ ہوتا۔بچہ اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرے سوچ کر فیس جمع کرلی۔بس فیس۔پرنٹنگ چارج۔اسکول میں ہی کتابیں، وردی وغیرہ۔ایک لاکھ کا خرچہ آیا۔آدھا پیسہ امجد لایا آدھا بیوی جھمکے فروخت کر کے لائی۔ دونوں کبھی اخراجات کی رسیدیں اور کبھی ایک دوسرے کو دیکھتے ۔۔۔"سنو نجمہ۔۔۔پرنسپل کی دادی گذر گئی ہے کل۔۔۔
"تو" نجمہ نے کہا۔۔۔۔
"تو ۔۔چہارم فیس بھی وہ ہم سے ہی لیں گے کیا۔۔۔
امجد نے معصومیت سے پوچھا۔۔۔۔۔
دادی کس کو؟
گھر کی جو ناؤزندگی کے اونچے نیچے پانیوں پہ رواں دواں تھی وہ ڈانوا ڈول تھی۔والد پتوار کی طرح صحیح سمت کھینچ رہے تھے۔گذر گئے تو دونوں بیٹوں نے الگ رہنے کا فیصلہ کیا۔ ماں خشمگیں نگاہوں سے خاموش بت کی طرح بٹوارہ دیکھ رہی تھی۔"لو بھائی ٹی وی تمہارا۔۔۔فریج میرا۔۔۔بکری تمہاری ۔بیل میرا۔۔ابو کا حقہ تمہارا۔۔ چارپائی میری۔۔۔انگن کے درمیان رسی بھی بند گئی ۔"لو جی سب ہوگیا۔۔کچھ رہ تو نہیں گیا؟ ۔۔بڑا بیٹا پوچھا تو اس کی پانچ سال کی بچی بولی۔۔۔۔
بابا۔۔۔بابا ۔۔۔۔۔دادی کس کو؟؟
خاموشی چھا گئی۔۔۔۔
حیرت
جواد خان اور ان کی بیوی نوکروں کے سہارے تھے۔ دونوں بیٹےامریکہ میں ڈاکٹر۔جب بچوں کی یاد ستاتی تو البم نکال کر ماضی میں کھو جاتے۔پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ماں کھڑکی سے آڑتے پرندوں کو دیکھتی رہتی ۔ہر آہٹ پہ دروازہ کی طرف جاتی۔ایک دن راہ تکتے تکتے اَجل نے دستک دی۔رشتہ داروں نے امریکہ فون ملایا۔ بیٹوں کی فلائٹ بار بار رد ہو رہی تھی۔۔۔۔کافی دیر ہوئی تو کالونی والوں نے آنگن سے تابوت اُٹھایا۔۔۔۔بچے فون پہ بہت رو رہے تھے ۔۔۔۔۔اور ماں کی انکھیں نہ جانے کیوں مرکے بھی کھلی رہ گئیں۔۔۔
حسینی کالونی، چھتر گام، بڈگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
Contents