رمیش! رمیش! پتا نہیں یہ لڑکا کہاں ہے؟ پڑھنے لکھنے میں تو اسکا دل لگتا نہیں ۔…سارا سارا دن آوارہ گردی، سینما…… اور سب سے چھوٹا تو موبائیل پر … فیس بک پر فرینڈس سے چیٹنگ… ماں نے بگڑتے ہوئے کہا۔
لیکن رمیش تو گھر میں تھاہی نہیں … شاید فرینڈزکے ساتھ مووی دیکھنے گیا تھا…
رمیش کے پاپا! میں کہتی ہوں رمیش پر سختی نہ برتی گئی تو وہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ مدھو نے شکایت کرتے ہوئے کہا۔
اچھا! آنے دو آج اسے میں ٹھیک کرتا ہوں ۔ رمیش کے پاپا نے اخبار کا پنا پلٹتے ہوئے کہا۔
ٹرینگ ، ٹرینگ ، دروازے کی گھنٹی بجی تو شیلا نے جلدی سے دروازہ کھولتے ہوئے کہا میم صاحب چھوٹے بابو آ گئے۔ یہ بول کر شیلا کیچن میں چلی گئی۔
رمیش! اتنی دیر کہاں لگا دی؟ پاپا نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا؟
ارے ڈیڈ ! آپ کو تو معلوم ہی ہے… یو نو آئی واز وتھ مائی فرینڈز… (You Know! I was with myt friend)
اور وہ نشے کی حالت میں جھومتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
مدھو سر پکڑ کر بیٹھ گئی اور روتے ہوئے کہا بھگوان کسی دشمن کو بھی ایسا نالائق بیٹا مت دینا۔
اتنے میں شیلا ٹرے میں کھانا لیکر آئی، میم صاب چھوٹے بابو کا کھانا!
لا ، مجھے دے مدھو نے شیلا کے ہاتھ سے کھانے کی ٹرے لیتے ہوئے کہا۔
مدھو ٹرے لیکر رمیش کے کمرے میں گئی تو رمیش بستر پر نشے میں چور اوندھا پڑا ہوا تھا۔
مدھو نے اس کے جوتے اتارتے ہوئے کہا بیٹا!
کھانا تو کھالے …پتا نہیں دن میں کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں؟
آخر کوئی جواب نہ ملنے پر مدھو اسکے کمرے کی لائٹ اوف کرکے باہر آگئی… اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو ٹپکاتے ہوئے بولی… اجی سنئے ہم سے کون سی غلطی ہوگئی جس کی سزا ہمیں اس بیٹے کے روپ میں مل رہی ہے؟
آکاش نے مدھو کو گلے سے لگا لیا… اور اسکو دلاسہ دیتے ہوئے بولا، گھبراؤ نہیں… سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اگلی صبح دروازے پر پھر دستک ہوئی… مدھو نے دروازہ کھولا تو دیکھا ان کے پڑوسی مسٹر گپتا غصے میں کھڑے ہیں۔
ارے گپتا جی آپ؟ مدھو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بہت دنوں کے بعد آئے ہیں؟ کہئے کیسے ہیں آپ؟ مدھو نے گپتا جی کو بیٹھنے کے لئے کہا۔
میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا ہوں۔
گپتا جی کیا ہوا؟ آپ اتنے غصہ میں کیوں ہیں؟
کہاں ہے رمیش؟ گپتا جی نے غصہ میں پوچھا؟
جی ابھی وہ سو رہا ہے۔ مدھو نے جواب دیا۔
سو رہا ہے! ہماری نیند اُڑا کر وہ کمبخت سو رہا ہے؟
آخر ہوا کیا؟ گپتا جی کچھ تو بتائیے؟
مدھو نے پھر پوچھا؟
سمجھا لیجئے اپنے بیٹے کو ورنہ پولیس کے حوالے کردوں گا۔
اوہ گپتا جی آپ بتاتے کیوں نہیں ہوا کیا ہے؟
شور سن کر رمیش اپنے کمرے سے باہر نکل آیا۔
پوچھئے اپنے سپوت سے ! آئے دن میری لڑکی کا راستہ روکتا ہے… اشلیل اشلیل باتیں کرتا ہے …آخری وارنگ دے رہا ہوں… ورنہ پولیس کے حوالے کر دوں گا… آئندہ میری بیٹی کو چھیڑنے یا پریشان کرنے کی کوشش کی تو… انگلی دکھاتے ہوئے گپتا جی نے وارنگ دی… اور یہ کہ کر گپتا جی واپس ہولئے۔
مدھو سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ بس اب ایک یہی کسر باقی تھی… اب تو پڑوسی بھی انگلی دکھاتے ہیں… بھگوان سے اسی دن کے لئے تجھے مانگا تھا… ایسے نالائق بیٹے سے تواچھا تھا بھگوان مجھے بے اولاد ہی رکھتا …کہتے ہوئے مدھو اپنے دوپٹے سے آنسو پوچھا۔
دن بیتتے گئے ۔ ایک دن مدھو نے شیلا کو الٹی کرتے دیکھا۔ شیلا! شیلا! کیا ہوا تجھے ؟ مدھو نے شیلا کو غور سے دیکھا تو شیلا سہم گئی ۔ کچھ نہیں کچھ نہیں… کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی… مدھو بھی پیچھے پیچھے اسکے کمرے میں گئی اور بار بار پوچھنے پر شیلا مالکن! مالکن! کہہ کر مدھو کے پیروں میں گر گئی۔ مجھے بتا پگلی کس کا بچہ ہے؟
شیلا زور زور سے رونے لگی۔ میں جانتی ہوں آخر یہ کارستانی کس کی ہے۔ ہمارا تو منہ کالا کردیا اس لڑکے نے ۔ کہتے ہوئے مدھو تیز تیز قدموں سے رمیش کے کمرے میں داخل ہوئی اور ایک زوردار طمانچہ رسید کردیا۔ نالائق! آخر تو میری کوکھ میں ہی کیوں نہیں مر گیا؟تیری وجہ سے آج یہ دن دیکھنے کو تو نہیں ملتا؟
لیکن ماں میں نے اب کیا کیا؟
شرم نہیں آتی پوچھتے ہوئے تو نے کیا کیا؟
آج جو تو نے کیا وہ کوئی دشمن بھی نہیں کرتا۔
لیکن مجھے بتائیے تو میں نے اب کون سی غلطی کی؟
تو سننا چاہتا ہے؟
تو سن، شیلا پیٹ سے ہے۔
ماں تیری سوگندھ میں اسکا ذمہ دار نہیں … ماں میری بات پر یقین کرو۔
مت لے میرا نام اپنی گندی زبان پر۔ آج تو نے میرا سر شرم سے نیچا کر دیا۔
میں کیا جواب دوں گی اس کی ماں کو… جس نے مجھ پر بھروسہ کر کے شیلا کو میرے ساتھ گاؤں سے یہاں بھیج دیا…میں اس یتیم بچی کو سہارا دینے کے لئے گاؤں سے اپنے پاس لائی تھی… آج تیری وجہ سے بے چاری بے سہارا ہوگئی۔ اب میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ کس سے کہوں؟
کہتے ہوئے شیلا کے کمرے کی طرف چل پڑی۔
ابھی کمرے تک پہنچی ہی تھی کہ کچھ آوازیں سن کر دروازے کے باہر ہی رک گئی اور کان لگاکرسننے لگی۔
میری جان! تم گھبراؤ نہیں ۔ میں نے کب انکار کیا ہے کہ یہ بچہ میرا نہیں۔ یہ بچہ میرا ہے ۔ مدھو کو اس بات کا کبھی پتا نہیں چلے گا۔ میں تم سے ضرور شادی کروں گا۔
مدھو نے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو شیلا آکاش کی بانہوں میں رو رہی تھی اور آکاش اسکے چہرے کو سہلا رہا تھا۔
���
اسسٹنٹ پروفیسر، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛7006979242