ایک وقت تھا جب ہم یونیورسٹی میں نئے نئے تھے۔حال ہی میں ہمارا داخلہ پی۔جی کے لئے ہو گیا تھا۔پھر وہاں لاتعداد اساتذہ کرام دیکھے جن میں ایک استاد کلاس میں داخل ہو کر بولا کہ میں یہاں کا ایک ریسرچ اسکالر ہوں اور میں جے۔آر۔ایف کے ساتھ ساتھ کئی بار نیٹ میں بھی کامیاب ہو گیا ہوں اور میں آپ لوگوں کا استاد ہوں۔حالاںکہ بہت سارے اساتذہ کے ساتھ ہماری ہمجولی ہو گئی تھی لیکن دل تھا اسی استاد پے آ کے تھم سا گیا۔استاد کے ساتھ ہماری اچھی بنتی تھی۔خود سے زیادہ استادِ محترم پہ بھروسہ کرنے لگے۔مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔پھر ایک دن ایسا وقت آیا جب میری توجہ اپنے کیرئر کی اور گامزن ہو گئی۔میں نیٹ کے امتحان کے لئے تیاری کرنا چاہتا تھا لیکن لاعِلم تھا۔مدد کی ضرورت آن پڑی۔دل میں یاد تازہ ہو گئی جیسے دل میں کوئی راہ کئے جا رہا ہوکہ میرا استادِ محترم ابھی حالِ حیات ہے تو مجھے کیا غم۔ساحل پہ کھڑے ہو تجھے کیا غم چلے جانا، میں ڈھوب رہا ہوں ڈھوبا تو نہیں ہوں۔آہ! میں نے مدد کے سلسلے میں اپنے استاد محترم کے واٹس ایپ پر بہت ساری مسیجزز چھوڑیں تھیں۔ہاں استاد محترم نے ایک ایک کر کے ساری مسیجزز پڑھ لئیں۔ لیکن میری آنکھیں ہمیشہ سے ہی استاد محترم کے جواب میں مشتاق تھیں لیکن نا مسیج آئی اورنہ ہی استاد محترم۔
بڈکوٹ راجوار، ہندوارہ
طالب علم :شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی سری نگر،موبائل؛9797087390ـ