تمہاری یا دمجھے ہر لمحے ستاتی رہتی ہے ۔تمہیں اس طرح مجھے چھوڑ کر نہیں جانا چاہے تھا۔ارمان کی آنکھوںسے آنسوں کے دو قطرے اسکی بیوی کی تصویر پر جا گرے۔ ارمان کی بیوی چند ماہ تک ایک موزی مرض میں مبتلا رہنے کے بعد فوت ہو چکی تھی۔اسی لمحہ فاطمہ اس کے پاس دوڑتے ہوئے آئی اور آتے ہی بابا جان باباجان کہہ کر ارمان کے گلے سے لپٹ گئی۔فاطمہ کل چھ سال کی ہونے والی ہے۔ارمان کے دماغ میں فاطمہ کے تحفے کو لے کر ہل چل مچ گئی ۔ہاں فاطمہ! تمہیں سالگرہ پرکیا تحفہ چاہئے۔بابا مجھے بہت سارے کھلونے اور چاکلیٹ چائیں۔اچھا اچھا بابا میں دلائوںگا۔ٹھیک ہے بابا جان ۔دوسری طرف سے قدموں کی آہٹ اس طرح سے سنائی دے رہی تھی گویا کوئی کمرے کی طرف آرہا ہے ۔ اسی لمحے میں ارمان کی دوسری بیوی کی آواز سنائی دی۔ زویابیٹا کہا ہو تم، آجائو جلدی سے، بابا جان سے اجازت لو۔ ہاںامی آرہی ہوں۔زویا کی آواز مدہم سی سنائی دے رہی تھی۔کس چیز کی اجازت آرزو ۔۔۔۔ارمان نے پر سکون ہو کر آرزو سے پوچھا۔ ہاں وہ میں امی کے پاس جا رہی ہوں۔سوچا زویا اور میں کچھ دن امی کے ہاں چلیں جائیں۔۔لیکن کل فاطمہ کی سالگرہ ہے اور فاطمہ بھی تمہاری بیٹی ہے ۔نہیں ارمان ضروری کام ہے ۔امی بیمار ہے اور بھائی جان کل دلّی چلے گئے اور امی اکیلی ہے۔اچھا فاطمہ کو بھی ساتھ لے چلو میں بھی کل وہیں آئوں گااور وہیں سالگرہ منائیں گے۔ارمان میں فاطمہ کو ساتھ نہیں لے سکتی ہوں۔تمہیں پتہ ہے نا وہ کتنی شرارتی ہے اور یہ نہ بھولو کہ فاطمہ بھی تمہاری بیٹی ہے۔ ارمان میں بحث کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔آرزو تم مجھ سے بحث کر رہی ہو میں نہیں۔
ارمان تم اچھے سے جانتے ہو کہ امی فاطمہ کو پسند نہیں کرتی ہے ،میں نہیں لے جا سکتی ہوں۔آرزو تم یہ کیوں نہیں بتاتی کہ تُم فاطمہ کو پسند نہیں کرتی ہو۔۔میں نے ایسا کب کہا کہ میں فاطمہ کوپسند نہیں کرتی۔تم مجھ پر الزام لگانا بند کروآرزو نے چلاتے ہوئے خواب آیا۔آرزو تم میری نظروں سے دور چلی جائو ورنہ۔۔۔ کیا؟ارمان تم نے کبھی زویا پر اتنی توجہ دی ہے، وہ بھی تو تمہاری بیٹی ہے۔آرزو تم حد سے بڑ رہی ہو۔نہیں ارما! تم ایک اچھے باپ نہیں بن پائو گے۔آرزو غصے میں زویا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگی۔اس کا غصہ اس قدر شدید تھا کہ اسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا ۔ اسی دوران چیخ سنائی دی۔فاطمہ ، فاطمہ ۔۔۔ ارمان کی چیخ کی آواز نے اُسے ڈرا دیا۔گاڑی سے اُترتے ہی اس کے ہوش و حواس گم ہوگئے۔ فرش پر خون اس قدر تھا کہ زویا اسے دیکھتے ہی بے ہوش کر فرش پر گر پڑی۔ ارمان میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا ، مجھ سے غلطی ہوگئی۔ارمان فاطمہ کو ہسپتال کی طرف لینے والا ہی تھا کہ آس پاس کے لوگوں کی بھیڑ یہاں جمع ہوگئی ۔
فاطمہ کو اس قدر گہری چھوٹ لگی تھی کہ وہ خون بہنے کی وجہ سے زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔آرزو! اگر میری بیٹی کوکچھ ہوا تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔آروز نے گاڑی کا دروازہ کھولا اورارمان فاطمہ کو گود میں بٹھاکرگاڑی میں بیٹھ گیا۔ انہوں نے بیٹی کو بچانے کے لئے گاڑی کی سپیڈ تیز کی تاکہ بیٹی کی جان بچ جائے ۔ ہسپتال کے صحن میں داخل ہوتے ہیں دوڑتے دوڑتے وہ ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر نے فاطمہ کی نبض دیکھی اور ارمان سے کہا کہ آپ بچی کیا لگتے ہوں۔جی ڈاکٹر صاحب میں ان کا والد ہوں۔ ہمیں افسوس ہے کہ آپ انہیں بر وقت یہاں نہیں پہنچا پائے اور ان کی جان نہیں بچا سکے ۔۔۔آرزونے چند منٹ زور زور سے چلا یا۔ خدایا یہ کیا ہوا۔میری بچی یہ کیا کر دیا تو نے مجھے ۔۔۔اسی کے ساتھ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑی۔ارمان فاطمہ کو گود میں اٹھا کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔آرزو کو ہوش آیا اور ارمان کی طرف دوڑنے لگی۔۔۔ارمان ارمان مجھے معاف کرو۔ ارمان کے آنسوں فاطمہ کے معصوم گلابی چہرے اور ملائم بالوں پر گر پڑے۔۔آرزو میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ میں تمہیں معاف نہیں کروں گا اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا۔ارمان آپ جو سزا مجھے دینا چاہتے ہو مجھے تسلیم ہے۔میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔ ،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔
���
نگری ،ڈوڈہ ، [email protected]